وارسا (بیورو رپورٹ) نیٹو کے سیکرٹری جنرل ینس ستولتن برگ نے کہا ہے کہ افغانستان کی سلامتی اب بھی ہمارے لیے ایک بڑا چینلج ہے۔ اس کی وجہ وہاں پر جاری لڑائی اور تشدد ہے۔ دہشت گردی کے لڑائی مشرق اور مغرب کی لڑائی نہیں بلکہ اس لعنت کا شکار زیادہ تر مسلمان ہی ہوئے ہیں۔
وہ پولینڈ کے دارالحکومت میں وارسا یونیورسٹی کے پروفیسرز، ریسرچ سکالرز، دانشوروں اور مختلف ملکوں کے سفارتکاروں سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر افغانستان کی سیکورٹی کا سوال اٹھاتے ہوئے پاکستانی پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر سید سبطین شاہ نے نیٹوکے سیکرٹری جنرل سے استفسار کیا ہے کہ افغان طالبان کے مرکزی رہنماووں ملاعمر اور ملااخترمنصور کی موت کے بعد بھی کیا افغانستان کی سیکورٹی نیٹوکے لیے ایک بڑاچینلج ہے؟ نیٹوکے سربراہ نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ جی ہاں یہ اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ وہاں تشدد اور لڑائی جاری ہے۔ اس موقع برطانیہ میں مقیم پاکستانی دانشور افراز اخترایڈوکیٹ بھی موجود تھے۔ نیٹوکے سیکرٹری جنرل نے مزید کہاکہ ہم افغانستان کی حکومت کی مدد کررہے ہیں۔
افغان فوج کو تربیت دی جاری ہے اور ان سے عسکری مشاورت ہورہی ہے تاکہ افغان فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مضبوط کیاجاسکے۔ نیٹوکے سربراہ نے کہاکہ اگرچہ ہمارا لڑاکامشن افغانستان میں تین سال قبل مکمل ہوگیاتھا لیکن افغانستان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ افغان فوج کو اس قابل بنایاجارہاہے تاکہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرسکے اور داعش سمیت تمام دہشت گرد عناصرکونیست و نابودکیاجاسکے۔ یہ مشرق اور مغرب کی لڑائی نہیں بلکہ یہ دہشت گردوں اور مجرموں کے خلاف جنگ ہے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر مسلمان شکارہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ ایساف افواج کے نیٹو کا لڑاکامشن جوافغانستان میں پندرہ سال قبل امریکہ کے گیارہ ستمبرکے واقعات کے بعد شروع ہواتھا، تین سال پہلے مکمل ہوگیاتھا لیکن نیٹوکی کچھ فورسزاب بھی افغانستان میں ہیں۔نیٹو حکام کاکہناہے کہ ان فورسز کا مقصد افغان فوج کو تربیت دینا اور افغان حکومت کی مدد کرنا ہے۔