تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
افغان باقی! کُسہار باقی۔ الحکم اللہ!الملک الل ہفطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی۔ یا بندا صحرائی یا مرد کوہستانی۔ ہم نے شاعر اسلام حضرت علامہ اقبال کے دو شعر اوپر درج کئے ہیں ان دو شعروں کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ جب تک افغانستان کے اندر کُہسار باقی ہیں ان شا اللہ افغان بھی باقی رہیں گے۔ اور دنیا میں فطرت کے مقاصد کی ترجمانی اگر کوئی طبقہ کرتا ہے تو وہ یا تو صحرائی لوگ ہیں یا پہاڑی لوگ ہیں پہاڑی سے مراد اقبال کا اشارہ افغانوں کی طرف ہے۔میڈیا میں خبر آئی ہے کہ طالبان نے شہر قندوز پر قبضہ کر لیا جس میں گورنر ہائوس پر قبضہ بھی شامل ہے۔
جیل سے ٥٠٠ قیدی رہا کرا لئے پورے علاقے پراپنے پرچم لہرا دیے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ طالبان نے نہیں افغانیوں نے شہر قندوز پر قبضہ کر لیا جب میڈیاطالبان طالبان کی رٹ لگاتا رہتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے افغانستان میں جو لوگ امریکی قبضہ چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ صرف طالبان ہیں جو کہ افغانستان کا ایک حصہ ہیں جو پشتونوں پر مشتمل ہے مگر قندوز پر قبضہ ہماری اس بات کا ثبوت فراہم کر رہا ہے کہ افغانسان میں جو جد وجہد ہو رہی ہے وہ صرف پشتون طالبان ہی نہیں کر رہے بلکہ پوری افغانی قوم جد و جہد کر رہی ہے۔ جو پشتون، تاجک،ازبک اور دوسری قوموں پر مشتمل ہیں۔
قندوز شمالی علاقہ جات میں ہے جو تاجکستان کی سرحد کے قریب ہے جن کی زبان پشتو نہیں ہے بلکہ فارسی ہے معلوم ہوا کہ فارسی علاقوں میں بھی طالبان کا اثر رسوخ ہے جو افغانستان کو امریکی پٹھو حکومت بلکہ امریکہ سے اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔اس سے قبل بھی جب افغانستان کے ٩٥ فی صد حصے پر اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی تو یہ سارے علاقہ اس میں شامل تھے۔جب اُستاد برہان الدین صاحب اس کے صدر بنے تھے جو فارسی بولنے والے تھے اورانجینئرحکمت یار خان صاحب وزیر اعظم جو پشتو بولنے والے تھے۔روس سے جنگ میں جو ٩ قابل ذکر گروپ لڑرہے تھے اورجنہوںنے روس پر فتح حاصل کی تھی۔ اس وقت افغانی قوم تھی طالبان نہیں تھے۔
اب بھی امریکا کو جو شکست دی ہے وہ افغانوں نے دی ہے جس کاحصہ طالبان بھی ہیں ہمارے مقصد یہ ہے کہ صرف پشتوں کی جد وجہد نہیں بلکہ تمام افغان گروپوں کی جد و جہد ہے جس کی وجہ سے قندوز پر افغانوں نے قبضہ کیا ہے اس سے پہلے وہ تخار پر بھی قبضہ کر چکے ہیں۔عبداللہ عبداللہ شمالی علاقہ جات کا نمائندہ ہے جو افغانستان کاچیف ایگزیکٹیو ہے اور اشرف غنی صدر ہے یہ عہدے اُنہیں امریکہ نے بانٹے تھے۔ اس قبضے کے بعد عبداللہ عبداللہ فوراًامریکہ سے واپس افغانستان واپس آگیاہے۔ افغانیوں نے اشرف غنی پٹھو حکومت کو اپنی قوت کا مظاہرہ دکھایا ہے۔
پہلے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے مجائدین کو روکنے کی کوشش کی گئی اور اب امریکہ نے ہوائی جہازوں سے بمباری شروع کر دی ہے جو بے ثودہے۔ ممکن ہے جھنگی نقطہ نظر سے مجائدین پیچھے ہٹ جائیں لیکن اس سے افغانیوں نے ثا بت کر دیا ہے کہ افغانستان میں جس علاقے میں چائیں اور جب بھی چائیں وہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ اگر یہ علاقہ پاکستان کے قریب ہوتا تو سیکولر عناصر طوطوں کی طرح رٹ لگاتے کہ پاکستان نے افغانیوں کی مدد کی ہے ۔ پھر بھی عبداللہ عبداللہ فرمارہے ہیں کہ پاکستان مداخلت نہ کرنے کا وعدہ پورے کرے۔
افغانستان میں آپ کی حکومت ہے اور پاکستان کے لوگ پورا افغانستان عبور کر کے قندوز میں مجائدین کی مدد کر رہا ہے تو آپ کی حکومت کا کیا جواز ہے۔ایک افغان سروے کے مطابق جس میں ٣٠ فیصد لوگوں نے رائے دی تھی کہ افغانستان کی حکومت مجائدین کے حوالے کر دی جائے اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔بھارت اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اشرف غنی نے بیان دیا تھا کہ پاکستان افغانستان کا برادر ملک نہیں ہے صرف پڑوسی ملک ہے۔٥٠ لاکھ افغان مہاجرین جو پاکستان نے خدمت کی ہے وہ بھول گئے ہیں۔اب بھی٣٠ لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں۔ روزانہ لوگ پاکستان آتے جاتے ہیں دونوں مسلمان ملک ہیں۔
اشرف غنی کہتے ہیں پاکستان نے افغانستان کے خلاف پراکسی جنگ چھیڑی ہوئی ہے۔جبکہ جھنگ خود افغانستان نے بھارت کی ایما پر پاکستان کے خلاف شروع کی ہوئی ہے پاکستان نے اشرف غنی کی درخواست پر کچھ ہی دن قبل اپنی سرزمین مری میں امن مذاکرات کروائے تھے۔دشمنوں کی ایما پر ملا عمر کی موت کا بہانہ بنا کر افغانستان نے یہ مذاکرات ملتوی کروا دیے تھے۔
اب بھی ہمارے سپہ سالار نے میونخ میں بیان دیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کا خواں ہیں۔جہاں تک پراکسی جھنگ کا معاملہ ہے تو افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ بیٹھا ہوا ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیں کر رہا ہے پا کستان کی طرف سے ثبوت مہیا کرنے کے باوجوداشرف غنی اُسے گرفتار نہیں کر رہا ہے۔تازہ دہشت گردی کی کاروائی بڈھ بیر کے ہوائی اڈے پر کی گئی جس میں سارے دہشت گرد مار بھی دیے گئے۔ اس سے قبل پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو شہید کیا تھااس میں بھی ہماری فوج نے سب دہشت گردوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا اگر آئندہ بھی ایسی ہی بزدلانہ کارئوایاں کی گئیں تو دہشت گردوں کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔
پاکستان بننے کے ساتھ ہی اُس نے پاکستان کے خلاف کاروائیاں شروع کر دیں تھیں بھارت والوں کا کہنا تھا کہ پاکستان بن تو رہا ہے لیکن یہ چل نہیں سکے گا۔روس جس نے مسلمانوں کے علاقے ترکی سے فتح کئے تھے اور دریائے آمو تک پہنچ چکا تھا۔ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف شازشیں کرنا شروع کی تھیں ان کی منزل گرم پانیوں تک تھی اور وہ اپنے لیڈر ایڈورڈ کے ڈاکٹریں پر عمل کرکے بلوچستان کو فتح کر کے خلیج پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا اور بھارت پاکستان کو توڑ کر اکھنڈ بھارت کی پالیسی پر عمل پیرا تھا اللہ نے روس کو تونہتے افغانیوں سے شکست دلائی اور بھارت کو بھی اللہ نیست و نابود کرے گا۔خود بھارت میں درجنون علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اوپر سے نریندر مودی ان کا وزیر اعظم بن گیا ہے جوخود دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا ممبر رہا ہے اس نے گجرات میں ٢٥٠٠ مسلمانوں کو ظلم کر کے ریاستی پولیس سے شہید کروایا تھا جس کا اس کو ابھی جواب دینا ہے۔ اب وہ پاکستان کی سرحدی خلاف وردیاں کر کے پاکستان پر دبائو ڈال کر کشمیر سے دست بردار کروانے چاہتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے کراچی کی ایک لسانی تنظیم کو فنڈنگ کر رہا ہے اس کے کارکنوں کو دہشت گردی کی ٹرنینگ دے رہا ہے آئے روز رینجرز ان دہشت گردوں کو گرفتار کر رہی ہے۔
لسانی تنظیم سیاسی چال کے طور پر حکومت پاکستان کو کہہ رہی ہے کہ جیسے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو معاف کر دیا گیا ہے ہماری بھی غلطیاں معاف کر دی جائیں مگر لسانی تنظیم کا لندن میں بیٹھا ہوا لیڈر اب بھی رینجرز کو ڈاکو کہہ رہا ہے تو معافی کیسی؟ بھارت بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کوافغانستان سے دہشت گردی کی ٹرنینگ دے کر پاکستان میں بھیجتاہے۔ پاکستانی طالبان کے دہشت گردوں بھی بھارت تربیت دے رہا ہے یہ سب باتیں ہر خاص و عوام کو پتہ ہیں۔ جارحانہ پالیسی اختیار کر کے بھارت پاکستان کو دنیا میں بدنام کرنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔اب تو پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں یہ سارے ثبوت پیش کر کے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھائیں گے تاکہ دنیا کو اصل حالات سے آگاہ کیا جائے کہ حقیقی دہشت گرد بھارت ہے پاکستان نہیں۔ فتح حق کی ہی ہو گی۔ افغانستان کے مجائدین بے در پے حملے کر کے قندوز کی طرح پورے افغانستان کو پٹھو حکمرانوں سے ان شاء اللہ آزاد کر لیں گے کیونکہ کہسار باقی !افغان باقی۔
تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد (سی سی پی)