تحریر: شاز ملک
گھر میں داخل ھوتے ھی میرے فون کی گھنٹی بجی اور میں نے اپنا موبائل آن کیا تو مارے خوشی کے میری آواز نہیں نکل رھی تھی کیونکہ امریکہ سے میرے ایک کلائینٹ کا فون تھا اُس نے میری پروڈکٹس لینے پر رضا مندی ظاھر کرتے ھوئے میرے ساتھ بزنس کا معاہدہ کرنے کی حامی بھری تھی میں اس سے باتیں کرتے ہوئے اپنے گھر کے ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوا تو میرا کلوتا بیٹا سلام کرتے ہوئے مجھ سے لپٹنے لگا تو میں نے اُسے ہاتھ سے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ھوئے پیچھے ہٹا دیا میں نے اپنی دھن میں مگن یہ غور نہیں کیا کہ میرے یوں ری ایکٹ کرنے سے اسکا مسکاتا چہرہ مرجھا سا گیا اور اُسکی آنکھوں میں جلتی محبت کی شمع جیسے بُجھ سی گئ تھی,۔
مگر میری آنکھوں کے سامنے لہراتے ڈالرز کی چمک نے سب ماند کر دیا تھا ; حتّی کہ میں نے اپنی وفا شعار بیوئ کے سلام کو بھی نظر اندازکردیا وہ مجھے شاکی نظروں سے دیکھتے ہوئے کچن میں چلی گئ میں اپنی چرب زبانی کی ساری صلاحیتوں کو برؤئے کار لاتے ہوئے اپنے کلایئنٹ کی خوشامد میں مصروف تھا تبھی میرے کلائنٹ نے پھر بات کرنے کا عندیہ دیتے ھوئے فون بند کر دیا۔
میں نے ڈائینگ روم کا رخ کیا جہاں میری بیوی اور بیٹا کھانے کے لیئے میرے منتظر تھے
میں نے کرسی پر بییٹھتے ہوئے کہا آج میں بہت خوش ہوں میری بیوی نے ہلکی سی مسکراہٹ دی
مگر منہ سے کچھ نہ بولی جبکہ میرا بیٹا خاموش تھا میں نے اپنے بیٹے سے لگاوٹ کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپکے پاپا آپ سے بات کر رہے ہیں شیراز بیٹا , میرے بیٹے نے سپاٹ لہجے میں مجھ سے پوچھا کیا وقت کی قیمت ہوتی ہے پاپا,.? میں نے کہا ہاں جیے میرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے میرا وقت…۔
میرے بیٹے نے میری بات کاٹ کر کہا آپکا وقت بہت قیمتی ہے میں نے فخریہ مسکراہٹ سے کہا ہاں میں ایک کامیاب انسانن ہوں اور یوں بھی میرے پاس فضول باتوں کے لیئے وقت نہیں ہے تب میں نے اپنے بیٹے سے کہا کیا آپ بھی میری طرح بنو گے ؟ میرے بیٹے نے یکدم کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے نا گواری سے کہا ہرگز نہیں۔
میں نے تعجب سے مسکراتے ہوئے کہا کیوں
وہ بولا میں ایک انسان بننے کی کوشش کرونگا
مشین نہیں اور پھر اپنے پیسوں سے آپکا وقت خریدونگا اورپھر یہ خریدا ھوا آدھا وقت آپکی بیوی یعنی اپنی ماں کو دونگا اور آدھا وقت خود اپنے لیئے چمچ میرے ھاتھ سے گر چکا تھا اور میں دم بخود اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو پاؤں پٹختے ھوئے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا……………………۔
تحریر: شاز ملک