اگر کراچی جیسے بڑے شہر میں آپ کے پاس اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل نہ ہو تو سفری اخراجات آپ کے ماہانہ بجٹ پر کافی بھاری پڑ سکتے ہیں۔
ٹیکسیوں اور رکشوں کے میٹر اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں، لہٰذا ڈرائیور کا جتنا دل چاہے، وہ اتنا کرایہ مانگ لیتے ہیں، حتیٰ کہ کئی مرتبہ قریبی مقامات تک جانے کے لیے بھی آپ سے بہت زیادہ پیسے وصول کرلیے جاتے ہیں۔
شہرِ کراچی کے پہلے ماس ٹرانزٹ سسٹم گرین لائن بی آر ٹی کی تکمیل میں اب بھی تقریباً ایک سال کا عرصہ باقی ہے، مگر مکمل ہونے کے بعد بھی اس کا روٹ صرف ایک ہی ہوگا جو روز افزوں بڑھتے ہوئے اس بے ہنگم شہر کے لیے ناکافی ہوگا۔
تو پھر ہمارے پاس کیا متبادل ہیں؟
اس کا ایک متبادل یقیناً بائیکیا ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، بائیکیا ایک موٹرسائیکل ٹیکسی سروس ہے، فی الوقت یہ سروس کراچی کے شہریوں کو اوبر اور کریم کی طرز پر آسان سفری سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
چوں کہ یہ سروس موٹرسائیکل کا استعمال کرتی ہے جس میں ایندھن اور مرمت کے اخراجات کم ہوتے ہیں، اس لیے اس کے چارجز روایتی ٹیکسیوں اور رکشوں سے کم ہوتے ہیں۔
یہ کمپنی پارسل ڈیلیوری کے میدان میں بھی خود کو آزمانا چاہ رہی ہے اور ان کے پارسل ڈیلیوری کے چارجز بھی کافی مناسب ہیں۔
یہ کیسے کام کرتی ہے؟
اس کی ایپ کافی سادہ اور آسان ہے اور مشہور ٹیکسی کمپنی کریم جیسی ہی ہے۔ لانچ ہونے پر آپ کے سامنے دو آپشن آتے ہیں: بائیکیا سواری کے لیے بلوائیں یا پھر پارسل پہنچانے کے لیے۔
کوئی بھی آپشن منتخب کرنے اور ‘چلو’ کا بٹن دبانے پر ایپ آپ کو قریبی رائیڈر سے منسلک کر دیتی ہے جو آپ کو آپ کی لوکیشن سے اٹھا لیتا ہے۔
ایپ میں متوقع کرایہ، بعد کے لیے بکنگ کروانے، جمع شدہ بیلنس اور منزل کے انتخاب جیسے بنیادی آپشن موجود نہیں ہیں۔ ایپ استعمال کرنے کے دوران میں نے کچھ مسائل (بگز) کا سامنا بھی کیا جن کا ذکر اس جائزے میں آگے چل کر آئے گا۔
میرا تجربہ
پیر کی ایک خوشگوار صبح میں نے دفتر تک جانے کے لیے بائیکیا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ سروس کیسی ہے۔
چند ہی منٹوں میں ایک شائستہ نوجوان اپنی 70 سی سی موٹرسائیکل پر مجھے اٹھانے کے لیے میرے گھر کے باہر موجود تھا۔ اس کی موٹرسائیکل بہت پرانی نہیں تھی اور بہتر حالت میں تھی۔
سفر کافی آرام دہ رہا، مگر رائیڈر تھوڑی بے احتیاطی سے چلا رہا تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ مجھے دفتر پہنچنے کی کوئی جلدی نہیں اور اگر آہستہ چلنے پر کرایہ زیادہ بھی ہوگیا تو بھی مجھے قبول ہوگا۔ اس نے میری درخواست تسلیم کرتے ہوئے بائیک کی رفتار آہستہ کردی اور بالآخر مجھے بحفاظت دفتر پہنچا دیا۔
گھر سے دفتر تک کا 17 کلومیٹر طویل راستہ 36 منٹ میں طے ہوا اور کل کرایہ 134 روپے بنا۔
یہ فاصلہ کتنا ہے، اس کے اندازے کے لیے میں بتاتا چلوں کہ میں گلستانِ جوہر میں رہتا ہوں اور میرا دفتر گورنر ہاؤس کے سامنے ہے۔ اگر یہی سفر رکشے کے ذریعے کیا جائے تو رکشے والے تقریباً 300 سے 400 روپے کے درمیان کرایہ لیتے ہیں۔
منزل پر پہنچنے کے بعد رائیڈر نے اپنا اسمارٹ فون نکالا اور خود کو فائیو اسٹار ریٹنگ دے ڈالی۔ میں اس پر کافی جزبز ہوا مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس نے خود کو فائیو اسٹار ریٹنگ دی نہیں تھی، بلکہ اس نے مجھ سے فائیو اسٹار ریٹنگ دینے کی سفارش کی تھی۔ جب میں نے اپنی ایپ کھولی تو ایپ نے مجھ سے کنفرم کیا کہ آیا میں واقعی رائیڈر کو فائیو اسٹار دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس ریٹنگ کم کرنے کا آپشن بھی موجود تھا۔
اگلے چند دنوں میں، میں نے بائیکیا مزید تین دفعہ استعمال کی اور تینوں دفعہ سفر اچھا اور سستا رہا۔ ہر دفعہ خوش اخلاق رائیڈرز آئے جو ٹریفک سگنلز کے پابند تھے۔
کیا یہ محفوظ ہے؟
چاروں دفعہ جو موٹرسائیکلیں آئیں، ان میں عقبی شیشے موجود نہیں تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ لین تبدیل کرنے یا اوورٹیک کرنے سے قبل رائیڈر اپنا سر گھماتا اور پیچھے دیکھتا۔
کیا یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہ کتنا خطرناک طریقہ ہے؟
پاکستان میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار افراد عقبی شیشے لگوانے کو باعثِ شرم سمجھتے ہیں، آخر یہ شیشے نہ لگوانے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
میں سالہا سال سے موٹرسائیکل چلا رہا ہوں اور میری موٹرسائیکل میں ہمیشہ عقبی شیشے موجود ہوتے ہیں۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کی موٹرسائیکل میں عقبی شیشے موجود ہوں (اور آپ انہیں استعمال کریں) تو حادثے کے امکانات اگر ختم نہیں تو بہت کم ضرور ہوجاتے ہیں۔
2 رائیڈز میں موٹرسائیکلیں بالکل پرانی اور مرمت کی طلبگار نظر آئیں۔ میں نے ایک رائیڈر سے پوچھا کہ کیا کمپنی موٹرسائیکلوں کو سروس میں شامل کرنے سے قبل حفاظتی معائنہ کرتی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ہاں، کرتی ہے۔
مگر ایسے کسی بھی حفاظتی معائنے کے کوئی آثار کم از کم مجھے تو نظر نہیں آئے۔ ایک موٹرسائیکل میں پچھلے فٹ ریسٹ نیچے کی طرف مڑے ہوئے تھے، چنانچہ کوئی 20 کلومیٹر کا سفر مجھے ٹانگیں لٹکائے ہوئے کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ کسی بھی رائیڈر کے پاس پیچھے بیٹھنے والے شخص کے لیے ہیلمٹ نہیں تھا، حالاں کہ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ پیچھے بیٹھنے والے شخص کو ہیلمٹ فراہم کیا جائے گا، چنانچہ ہر دفعہ مجھے اپنا ہیلمٹ لانا پڑا۔
حیرت کی بات ہے کہ مجھے لینے کے لیے آنے والے ایک رائیڈر نے دورانِ گفتگو بتایا کہ اس کے پاس لرنرز ڈرائیونگ لائسنس ہے، پکا لائسنس نہیں۔
بھلے ہی اس نے مجھے میری منزل تک بحفاظت پہنچا دیا ہو، مگر ایک ایسی کمپنی جو محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے والی کمپنی بننا چاہتی ہے، اس سے ایسی لاپرواہی کی توقع ناقابلِ قبول ہے۔ بائیکیا کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ وہ بغیر لائسنس یا لرنرز لائسنس والے رائیڈرز کو اپنی سروس میں شامل نہیں کرتے۔
ایپ کے مسائل
ایپ استعمال کرنے کے دوران کچھ جگہوں پر تجربہ پریشان کن رہا۔ ایک صبح جب میں نے ایک اور دفعہ بائیکیا استعمال کرنے کے لیے ایپ کھولی تو گھر کے قریب ترین چاروں کے چاروں رائیڈر ملیر چھاؤنی میں نظر آ رہے تھے اور ان کے نشانات بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں رہے تھے۔ ‘چلو’ کا بٹن دبانے پر ایپ کسی نہ کسی رائیڈر سے منسلک کر دیتی مگر رائیڈر کنفرم کرنے کے لیے واپس کال ہی نہ کرتے۔
پانچویں دفعہ کوشش کرنے پر ایک رائیڈر کا نشان لگاتار ملیر چھاؤنی سے گلشنِ اقبال اور واپس ملیر تک اڑ رہا تھا، جیسے کہ ایپ یہ معلوم نہ کر پا رہی ہو کہ رائیڈر موجود کہاں ہے۔
رائیڈر کو انتظار کروانے یا اسے بلوا کر رائیڈ منسوخ کر دینے کے کوئی چارجز نہیں ہیں جس کی وجہ سے غیر سنجیدہ افراد اکثر رائیڈر کا وقت اور ایندھن ضائع کرتے ہیں۔
کمپنی کو یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ ایک اور فیچر جو موجود نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ آپ سفر کی شروعات میں اپنی منزل کا انتخاب نہیں کر سکتے اور نہ ہی رائیڈر اسے ایپ میں سیٹ کرتے ہیں۔
ایک دفعہ جب رائیڈ ختم ہو جائے تو ایپ جی پی ایس کی مدد سے رائیڈ کا کُل فاصلہ بتاتی ہے اور یوں کرایہ طے ہوتا ہے۔
حادثے کی صورت میں
رائیڈرز کے ساتھ بات چیت کے دوران مجھے بتایا گیا کہ کمپنی نے انہیں حادثے کی صورت میں 25 ہزار روپے تک طبی سہولیات کی مد میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ موبائل فون چھن جانے کی صورت میں آٹھ ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے اور یہ کہ کمپنی رائیڈرز کو زیادہ مہنگے فون رکھنے سے منع کرتی ہے۔
چوں کہ موٹرسائیکل پر گاڑی کی بہ نسبت حادثے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رائیڈ کے دوران میرا فون چھن جائے، تو مجھے بھی رائیڈر جتنے پیسے دیئے جائیں گے۔
مگر جب میں نے دعویٰ دائر کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ چوں کہ اب تک ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، اس لیے کوئی رائیڈر جانتا نہیں ہے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔
فیصلہ
ایک بات تو طے ہے، کہ بائیکیا آپ کے پیسوں کا بہترین نعم البدل ہے۔
اگر آپ اپنی منزل پر کم پیسوں میں جلد سے جلد پہنچنا چاہتے ہیں تو آپ کو بائیکیا ضرور استعمال کرنی چاہیے۔ کسی بھی نئی کمپنی میں اس طرح کے مسائل ہونا عام بات ہے، مگر جو چیز اہم ہے وہ کمپنی کا ان مسائل کو بروقت اور احسن طریقے سے حل کرنے کا عزم ہے۔
کمپنی کو اپنی موٹرسائیکلوں کی حالت کے حوالے سے کڑے معیار نافذ کرنے چاہیئں اور تمام ضروری حفاظتی فیچرز بشمول عقبی شیشے، پھسلنے کی صورت میں بائیک کو مسافروں پر گرنے سے بچانے کے لیے دھاتی سلاخ، پیچھے بیٹھنے والے کے لیے ہیلمٹ، اور سائلینسر پائپ کے لیے فریم تاکہ پیر یا ٹانگ جلنے سے بچائی جا سکے، کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہیے۔
میں نے ان تمام نکات پر کمپنی کا مؤقف جاننے کے لیے کئی بار رابطہ کیا مگر مجھے جواب نہیں دیا گیا۔ اگر جواب ملا ہوتا تو ہم جان سکتے تھے کہ کمپنی ان مسائل کو کس طرح حل کر رہی ہے، یا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اسے ضرور آزمائیں اور اگر آپ اب بھی گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں تو ‘گرلز ایٹ ڈھاباز’ کی یہ زبردست ویڈیو دیکھیں اور ریویو پڑھیں۔