کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) افغان طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھالنے کی تیاریاں شروع کر دیں، اقتدار میں آنے کے بعد ماضی کی سخت پالیسیوں کو ترک کرنے اور مخالفین کو عام معافی دینے کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق افغان میں امن کے قیام کیلئے افغان طالبان، امریکا اور دیگر فریقین کے درمیان مذاکرات کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہوا ہے۔اس حوالے سے بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ امریکا افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے کافی سنجیدگی دکھا رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ افغان طالبان کیخلاف کاروائیاں ختم کرتے ہوئے انہیں اہم ذمہ داریاں سونپ دی جائیں۔ دوسری جانب افغان طالبان نے بھی افغانستان میں 17 برس بعد دوبارہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ماضی کی سخت پالیسیوں کو ترک کر دیں گے۔ افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر اپنے تمام مخالفین کو عام معافی دینے کا اعلان کریں گے۔ اس حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن اور طالبان واپس آتے ہیں تو 1996 جیسے واقعات نہیں دہرائیں گے بلکہ ہم افغان عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے انہیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا کہ ہماری مخالفت صرف غیرملکی افواج کی وجہ سے ہے۔ ایک مرتبہ غیرملکی افواج کا انخلا اور امن معاہدے پر دستخط ہوجائیں پھر ملکی سطح پر لوگوں کو عام معافی دی جائے گی۔ پولیس، فوج، حکومت یا کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ 1996 میں طالبان جب اقتدار میں آئے تو ملک میں بے حد خون خرابہ ہوا تھا۔ کابل کے فٹبال گراؤنڈ میں مخالفین کو پھانسیاں دی جارہی تھیں جس نے طالبان کو دنیا کے سامنے ظالم بناکر پیش کیا تھا۔ تاہم اب ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے افغان طالبان نے اپنا امیج بہتر بنانے کی جانب سوچنا شروع کردیا ہے۔