کابل (ویب ڈیسک ) عالمی میڈیا کی جانب سے پاکستا کے صوبے خیبر پختونخواہ میں طالبان کمانڈر ملا عمر کے بیٹے کی ہلاکت کے دعویٰ میں کوئی سچائی نہیں ہے ، افغان طالبان نے عالمی میڈیا کے دعویٰ کو جھوٹا قرار دے دیا ، تفصیلات کے مطابق ا فغان طالباننے ملا عمر کے بیٹے اور سینئر رہنما ملا محمد یعقوب کی پاکستان میں ہلاکت کی خبروں کی تردید کی ہے۔ملا محمد یعقوب طالبان کے بانی رہنما ملا عمر کے سب سے بڑے بیٹے اور افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 15 میں طالبان کے فوجی کمیشن کے سربراہ ہیں۔غیرملکی میڈیا کے مطابق ملا عمر یعقوب کی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جسے طالبان نے یکسر مسترد کردیا ہے۔واضح رہے کہ اس سے پہلے اسامہ بن لادن کو بھی پاکستا ن میں قتل کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا جس کے بعد امریکی ادارے سی آئی اے کی جانب سے کچھ عرصہ قبل منظر عام پر لائی جانے والی “ایبٹ آباد کمپاؤنڈ” سے برآمد شدہ دستاویزات القاعدہ تنظیم کے بانی اسامہ بن لادن کے گھر سے متعلق تفصیلات پر روشنی ڈالتی ہیں۔دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد میں یہ گھر 2003ء کے اوائل میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کے بارے میں امید تھی کہ یہ اسامہ بن لادن اور ان کے گھر والوں کے لیے ایک محفوظ اور مستقل پناہ گاہ ثابت ہو گا۔ تاہم یہ القاعدہ سربراہ کے لیے موت کا جال ثابت ہوا جہاں ایک دہائی تک تعاقب کے بعد اُن کی زندگی کی کہانی اختتامپذیر ہوئیاسامہ بن لادن نے ایبٹ آباد کے اس کمپاؤنڈ میں 5 برس گزارے۔ اس دوران وہ یہاں سے اپنی تنظیم کے امور کی نگرانی کرتے رہے اور عرب ممالک میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی تحریک “عرب بہار” کے حالات و واقعات پر بھی نظر رکھی۔ یہاں رہتے ہوئے وہ الجزیرہ چینل کے ذریعے اپنے اور اپنی تنظیم کے متعلق خبروں اور رپورٹوں کو بھی ملاحظہ کرتے تھے۔اسامہ بن لادن کی بیوی خیریہ صابر اور اس کے بیٹے حمزہ بن لادن کے ایبٹ آباد کمپاؤنڈ پہنچنے کے صرف دو ماہ بعد ہی القاعدہ سربراہ کی زندگی کا چراغ گُل ہو گیا۔ ایبٹ آباد دستاویزات صرف تحریری مواد پر مشتمل نہیں بلکہ ان میں بہت سی تصاویر اور وڈیو کلپس بھی شامل ہیں۔بن لادن کے گھر کے اندر دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ نے اپنے طور پر مکمل تنہائی اور دوری اختیار کر رکھی تھی۔ گھر کے عقبی کھُلے حصّے میں خرگوش ، مرغیاں اور گائیں پالی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ بعض سبزیاں اور پھل بھی کاشت کیے جاتے تھے۔ اسی طرح بعض وڈیو کلپوں میں ہم اسامہ کو نسبتا کم سنجیدہ اور زیادہ بے تکلف حالت میں دیکھتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنی بڑی بیٹی خدیجہ کے بیٹے عبداللہ کو خطاب کی تربیت دیتے ہوئے بھی نظر آئے۔بعض وڈیو کلپس میں ایسا نظر آتا ہے کہ بن لادن کے گھر میں نشانہ بازی میں مہارت حاصل کرنے کی مشق کرنے والے افراد بھی تھے۔ غالبا یہ اسامہ کا بیٹا خالد ہوتا تھا جو حملے کی رات اپنے باپ کے ساتھ جاں بحق ہوا۔ ایک وڈیو کلپ میں جو لگتا ہے کہ القاعدہ تنظیم کے سربراہ نے اپنی ہلاکت سے کچھ ہی عرصہ پہلے ریکارڈ کیا تھا، اسامہ بن لادن شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے داڑھی پر مہندی بھی لگا رکھی ہے اور بعض جگہ اس میں سفیدی بھی نمایں ہو رہی ہےایک دستاویز کے مطابق اسامہ بن لادن نے ایک موقع پر تحریر کیا کہ علاقے میں انٹیلی جنس کمانڈر بہت زیادہ ہوشیار ہے اور وہ اُس کے ساتھیوں پر کڑی نظر رکھے گا تا کہ اُن کی قیام گاہ تک پہنچ سکے۔ اسامہ نے اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ ملاقات کے لیے کوہاٹ اور پشاور کے درمیان واقع سرنگوں کا استعمال کریں اور ملاقات کے بعد اندر رہتے ہوئے ہی واپسی میں اپنی گاڑیوں کو تبدیل کر لیں۔اسامہ نے اپنے گھر والوں اور ساتھیوں کو متنبہ کیا کہ انہیں اس بات کی اہمیت جاننا چاہیے کہ وہ ایران سے لائی گئی اپنی چیزوں مثلا سوٹ کیس اور ان کے اندر کی اشیاء سے چھٹکارہ حاصل کر لیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس سامان کے اندر ایرانیوں کی جانب سے جاسوسی کی ننھے آلات نصب کر دیے گئے ہوں۔