لاہور (ویب ڈیسک) رانا ثنااللہ کی رہائی کے بعد کی مسکراہٹیں اور مریم نواز سے ملاقات کے بعد کی گفتگو پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ عمران خان کے مخالفین اور سیاست کے تمام چھوٹے بڑے باوے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی جو بچے ہیں آزاد ہونے کی طرف گامزن ہیں۔
نامور صحافی صابر شاکر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سیاست کے یہ تمام اعلیٰ دماغ صرف ایک مشن پر یکجا ہیں اور وہ ہے مائنس ون۔ اپوزیشن کی تمام مؤثر آوازیں ایک بات پر یک سْو نظر آتی ہیں کہ تمام مسائل کا حل رواں سال نئے عام انتخابات میں ہے‘ اور اس بیانیے کو وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت نے اس تاثر کو روکنے کی مؤثر پیش بندی نہ کی تو اپوزیشن اس بیانیے کو مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے کہ خان صاحب کو تمام مسائل کی جَڑ قرار دیا جائے‘ کیونکہ پارلیمنٹ کی اب تک کی کارکردگی قانون سازی کے اعتبار سے صفر رہی ہے‘ سوائے فاٹا اصلاحات اور بجٹ کی منظوری کے‘ اور کوئی قابل ذکر کامیابی نظر نہیں آتی۔ آرڈیننسوں کے اجرا سے کام چلایا جا رہا ہے۔ الیکشن کمشن میں تعیناتیاں نہیں ہو پا رہیں۔ سو معاملات ایک جگہ پر ٹھہر سے گئے ہیں۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر حمایت کیلئے اپوزیشن کی مرکزی قیادتوں سے رابطے بھی انہوں نے کئے جن کا یہ معاملہ ہے۔ اپوزیشن اگر اس مسئلے پر خوشی خوشی ہاں کرتی ہے تو یہ خبر ہرگز عمران حکومت کے لئے خوشگوار نہیں ہے۔ ان دگرگوں حالات میں حکومت 2020 میں داخل ہو چکی ہے۔ گزشتہ سال دھواں دھار رہا، پاکستان تحریک انصاف کے بجائے اپوزیشن کا بیانیہ حاوی رہا جس کا کریڈٹ اپوزیشن کی میڈیا سٹریٹیجک ٹیم کو جاتا ہے‘ جس نے بڑی چابک دستی سے سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی۔
پی ٹی آئی کے وزرا اور ترجمانوں کی ٹیم اپنے وزیر اعظم کا مؤثر دفاع کرنے میں کافی کمزور نظر آئی۔ ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لئے کئے گئے سخت اقدامات کو عام آدمی میں پذیرائی نہ مل سکی۔ بجلی‘ سوئی گیس‘ ادویات‘ پٹرولیم مصنوعات اور روزمرہ استعمال کی عام اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کم آمدنی والے طبقے میں عمران خان کی مقبولیت کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافے کو بھی، جو سو فیصد صوبائی اور ضلعی حکومتوں کا معاملہ تھا، وفاقی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا اور پی ٹی آئی کے وفاقی ترجمانوں کی ٹیم ناکام وضاحتیں کرتی رہی۔ یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائی سولہ ماہ گزرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی ٹیم اپنی اچھی باتوں کو بھی کیش نہ کروا سکی۔ اقوام متحدہ میں عمران خان جیسی تقریر اگر نواز شریف یا بلاول بھٹو نے کی ہوتی تو یہ جماعتیں اب تک اسی تقریر کا سیاسی منافع کھا رہی ہوتیں۔ معیشت میں کئے گئے اچھے اقدامات کا چونکہ عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا‘ اس لئے وہ صرف اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عثمان بزدار کی تقرری بھی پورا سال موضوع تنقید رہی اور عمران خان کے سوا عثمان بزدار کا دفاع بھی کسی نے نہ کیا۔عمران خان صاحب کے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘ ایک طرف عام آدمی کے مسائل کا فوری حل‘ جس میں مہنگائی کو کم کرنا‘ گیس‘ بجلی اور عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو عوامی نقطہ نگاہ سے کم کرنا شامل ہے‘ لازمی ہو گا اور اگر انہوں نے اپنی امپورٹڈ معاشی ٹیم کی نظروں سے چیزوں کو دیکھنا نہ چھوڑا تو پھر ان سے بے پناہ محبت کرنے والے ان کے ووٹرز اور سپورٹرز خان کی محبت سے آزاد ہونے میں اب کْچھ زیادہ دیر نہیں لگائیں گے۔ کرشمہ ساز قیادت کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور عوام اس کو اپنا مسیحا مانتے ہیں جو ان کو روٹی کپڑے اور مکان کا آسرا دے نہ کہ ان کو جو ہر مہینے ان کی قوت خرید کو کم کرتے ہوئے نظر آئیں۔