لاہور (ویب ڈیسک) جب سے کویت آیا ہوں کویت پر اور یہاں مقیم پاکستانی دوستوں کی محبت پر لِکھنے کا موقع ہی نہیں مِل رہا۔ اب پاکستان واپس آکر ہی اِس پر کچھ لِکھوں گا، اور اِس کی نوبت بھی پتہ نہیں آتی ہے یا نہیں؟پاکستان میں روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ ہو جاتا ہےنامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی خوشیوں پر لِکھنے کا موقع ہی نہیں مِلتا۔ فیض احمد فیض نے یہ شاعری ایسے ہی حالات میں کی ہوگی۔ ”ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم ….ریشم واطلس وکمخواب میں بنوائے ہوئے ….جابہ جا بِکتے ہوئے کوچہ وبازار میں جِسم …. خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے ….جِسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے …. پیپ بہتی ہے گلتے ہوئے ناسوروں سے …. لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے….اب بھی دلکش ہے تراحُسن مگر کیاکیجئے…. اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا…. راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا“ ….سواب کوئی راحت کوئی خوشی اپنے اردگرد ہمیں دِکھائی نہیں دیتی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ”ہم اندھے ہوگئے ہیں یا جگنو سوگئے ہیں، ہرطرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے مگر زندگی سے نجات زندگی سے بڑی نعمت محسوس ہونے لگی ہے، ظلم وستم کے مارے ہوئے بے شمار لوگ یہ سوچنے پر اب مجبور ہوگئے ہیں کاش خودکشی اسلام میں حرام نہ ہوتی …. سیف الدین سیف یاد آئے ” موت سے ترے درمندوں کی ….مشکل آسان ہوگئی ہوگی …. ایسی ہی زندگی پرفرازنے کہا تھا” زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا ….تیری بخشش تِری دہلیز پہ دھر جائے گا “ …. میں جب ساہیوال میں پولیس کے کچھ درندوں کو نہتے لوگوں پر اُن کے بچوں کے سامنے گولیاں برساتے دیکھ رہا تھا مجھے حضرت احسان دانش یاد آرہے تھے ”کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے ….جب سوچنا پڑتا ہے خُدا ہے کہ نہیں ہے“ ….سانحہ ساہیوال پر دِل خون کے آنسو رورہا ہے۔ اِس سے پہلے سانحہ پشاور پر بھی دِل خون کے آنسو رویا تھا ۔ سانحہ پشاور اور سانحہ ساہیوال میں فرق صِرف اتنا ہے سانحہ پشاور میں بڑوں کے بچوں کو ماردیا گیا تھا اور سانحہ ساہیوال میں بچوں بڑوں کو ماردیا گیا ہے۔ یہ سانحہ پشاور سے زیادہ بڑا سانحہ ہے۔ اُس سے زیادہ بڑی دہشت گردی ہے۔ اولاد (بچوں کا ) نعم البدل اِس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے کہ مزید اولاد پیدا کرلی جائے، والدین کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ سو سانحہ ساہیوال میں والدین سے محروم ہونے والے بچوں کی زندگی کوہ ہمالیہ جیسی ہے۔ چار دِن ہم سب اُن کے ساتھ بڑی ہمدردی جتائیں گے۔ ہرکوئی اُن سے مِلنا چاہتا ہے۔ کچھ حقیقی معنوں میں بھی دُکھی ہوں گے اور کچھ صِرف فیس بُک کا پیٹ بھرنے کے لیے اِس طرح کی شعبدہ بازیوں اور فنکاریوں کو ضروری سمجھتے ہیں،بناوٹی ہمدردیوں کا طوفان جب تھم جائے گا اور بچوں میں والدین کا احساس محرومی بڑ ھ جائے گا تب اُن کے الم کی جو حالت ہوگی اللہ کِسی کو اُس سے دوچار نہ کرے …. کہتے ہیں ”جِس تن لاگے اُس تن جانے“۔ سانحہ ساہیوال پر ہرآنکھ اشکبار ہے۔ خود میری حالت یہ ہے کویت میں اپنے اعزاز میں منعقدہ کچھ تقریبات میں شرکت سے اِس لیے میں نے معذرت کرلی دل سوگوار تھا۔ ایسی سوگواری کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس سے قبل ایسا ہی ایک سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور میں ہواتھا۔ اِس سانحے میں بھی بے گناہ لوگوں کو ایسے ہی گولیاں ماری گئی تھیں۔ اُس سانحے کی چیخ و پکار بھی آج تک کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے۔ اُس سانحے کا بھی آج تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ وہ سانحہ ابھی تک ”تاریخ پہ تاریخ“ کے عدالتی وحکومتی کلچر کا شکار ہے۔ شاید اِس لیے کہ اُس کے ذمہ دار حکمران تھے، اب جو سانحہ ساہیوال میں ہوا ہے حکمران اُس کے اُس طرح تو ظاہر ہے ذمہ دار نہیں جِس طرح سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں اُس وقت کے حکمران تھے مگر موجودہ حکمرانوں کے پِلے اُن کے وزیر شذیر جِس طرح کا رنگ بلکہ اپنی طرح کا رنگ سانحہ ساہیوال کو دینے کی مسلسل کوشش کررہے ہیںاور سی ٹی ڈی کے کچھ اہلکاروں کو بچانے کے لیے ہاتھ پاﺅں ماررہے ہیں، اُس سے میں ابھی سے اِس یقین میں مبتلا ہوگیا ہوں اِس کے باوجود کہ وزیراعظم عمران خان اِس سانحے سے شدید غم وغصے کا شکار ہیں، میری ذاتی طورپر بھی اِس ضِمن میں اُن سے بات ہوئی، وہ اِس سانحے کو فوری طورپر کِسی انجام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، اِس کا نتیجہ بھی سوائے ”تاریخ پہ تاریخ“ کے کچھ نہیں نکلے گا کہ اُن کے وزیر شذیر جِس طرح کی بکواس بازی مسلسل کررہے ہیں کم ازکم مجھے اُس سے یہی احساس ہوتا ہے وہ عوام کے نہیں سی ٹی ڈی یا پولیس کے ”ٹاﺅٹ“ ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو کوئی رام کہانی سناکر اِس اطمینان میں مبتلا کردیں گے کہ مرنے والے واقعی دہشت گرد تھے یا اُن کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق ضرورتھا، …. سچ پوچھیں مجھے جب پتہ چلا اِس سانحے کی انکوائری ایک ایڈیشنل آئی جی کے سپرد کی گئی ہے مجھے یوں لگا یہ انکوائری سی ٹی ڈی کے اُنہی اہل کاروں کے سپردخاک کردی گئی ہے جو اِس سانحے کے اصل ذمہ دار یعنی قاتل ہیں۔ یعنی ملزمان کو ہی یہ حکم دیا گیا ہے تین یوم کے اندر اندر انکوائری کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔وزیراعظم عمران خان اگر واقعی دُکھی تھے اور پولیس کی فنکاریوں کا اُنہیں اندازہ بھی تھا اُنہیں چاہیے تھا یہ انکوائری ہائی کورٹ کے کِسی سینئر جج سے کرواتے، آج ” بابا رحمتا“ بھی ہمیں رہ رہ کر یاد آرہا ہے بے شمار معاملات صرف اُس کے خوف سے سیدھے رہتے تھے، اب کِسی کو کِسی کا کوئی خوف نہیں رہا، بیوروکریسی یہ سمجھتی ہے وہ وزیراعظم کو بڑی آسانی سے بے وقوف بناسکتی ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب ویسے ہی بڑا بے وقوف ہے۔ اُسے بے وقوف بنانے کی ضرورت ہی نہیں، وہ بنا بنایا ہے۔ وہ صِرف ایک کام بڑی سمجھداری سے کرسکتا ہے اور وہ بے وقوفی پہ بے وقوفی ہے۔ ہسپتال میں سوئے ہوئے زخمی بچوں کو پھول پیش کرتے ہوئے جِس طرح وہ تصویریں بنوارہا تھا کاش وزیراعظم عمران خان اُسے سمجھائیں وہ اِس طرح کی فنکاریوں اور شعبدہ بازیوں سے ہرگز خوش نہیں ہوتے۔ وزیراعظم عمران خان سے فون پر میں نے گزارش کی ہے وہ خاتون اول بشریٰ بی بی کو اِن یتیم اور مسکین بچوں کے سرپردست شفقت رکھنے کے لیے لاہور بھیجیں اور خود بھی آئیں۔ اُنہوں نے وعدہ کیا ہے ایسے ہی ہوگا۔ اُن کے اپنے بچے بیرون ملک ہیں۔ اُنہیں چاہیے اِن بچوں کو اپنے بچے بنالیں،ساری زندگی اُنہیں یہ احساس نہ ہونے دیں کہ اُن کے والدین اِس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ اور پنجاب میں پولیس کے ”روایتی کردار“ پر بھی کچھ غور فرمائیں۔ اُنہوں نے بارہا یہ وعدہ کیا وہ پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل کریں گے۔ اِس کو سیاسی مداخلت سے پاک کردیں گے۔ سیاسی مداخلت کئی گنا بلکہ کئی ”گناہ“ بڑھ چکی ہے۔ اکثر پولیس اہل کار پہلے سے زیادہ اِس یقین میں مبتلا ہیں وہ جتنی چاہیں نااہلی اور جرموں کا مظاہرہ کرلیں کوئی اُن کا کچھ نہیں اُکھاڑ سکتا، حکومت کے کِسی وزیر شذیر ، کِسی ایم این اے یا ایم پی اے سے یا ”گجر گروپ“ سے وہ سفارش کرواکر ہرطرح کی چُھوٹ حاصل کرلیں گے۔ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی کی ”مجبوریاں“ روزبروز بڑھتی جارہی ہیں۔ وزیراعظم کو چاہیے فوری اور ذاتی طورپر اُن سے ملاقات کریں۔ میں بھی اِس کا اہتمام کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ جب تک وہ آئی جی پنجاب کو ویسا اعتماد نہیں بخشیں گے جیسا کے پی کے میں جناب ناصردرانی کو اُنہوں نے بخشا ہوا تھا معاملات میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ بلکہ معاملات مزید بگڑتے جائیں گے۔ کچھ ”سِول خفیہ اداروں“ میں بیٹھے ہوئے سابقہ کرپٹ حکمرانوں کے ”خصوصی ایلچیوں“سے بھی وہ نجات حاصل کریں۔….جہاں تک وزیر اعلیٰ پنجاب کا تعلق ہے صِرف میں نہیں پنجاب کے عوام کی اکثریت جس میں پی ٹی آئی اور عمران خان کے چاہنے والے بھی شامِل ہیں سچے دِل سے یہ سمجھتے ہیں اُس کے ہاتھ میں آئی ہوئی ”ماچس“ نہ چھینی گئی تو ترقی اور تبدیلی کے وزیر اعظمی وژن کو جلاکر وہ راکھ بنادے گا