لاہور (ویب ڈیسک) نیب کی جانب سے خواجہ آصف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات سے متعلق اہم خبر سامنے آئی ہے۔اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ خواجہ آصف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے اسٹیٹ بینک کو خط لکھا ہے۔نیب نے اسٹیٹ بینک سے خواجہ آصف کے بطور وزیر دورانیہ کی تمام تفصیلات طلب کی ہیں۔
نیب نے خواجہ آصف کی طرف سے کی گئی ٹرانزیکشن کی تمام تفصیلات طلب کی ہیں جب کہ خواجہ آصف کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ اور بچوں کی ٹرانزیکشن کی تفصیلات طلب کی ہیں۔خواجہ آصف کی جانب سے لاکر کی سہولیات کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں اور اس کے علاوہ بینکوں کے قرضے اور بیرون ملک بھیجی گئی رقوم کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔خیال رہے کچھ روز قبل قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا تھا کہ نیب نے مجھے کہا کہ خواجہ آصف کے خلاف گواہی دیں۔مجھے تحقیقات کے لیے بلایا ہے یا پھر وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے،نیب والے ہر کسی کو کہتے ہیں کہ شہباز شریف کے خلاف گواہی دو گے تو تمیں اچھی نوکری دیں گے۔جس کے بعد سیاسی مبصرین کی طرف سے کہا گیا تھا کہ شہباز شریف کی جانب سے اٹھائے جانے والے بعض سوالات کے جوابات حکومت اور نیب پر فرض ہیں کیونکہ یہ بڑی بد گمانیوں اور سیاسی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہیں۔اجلاس کا سب سے فائدہ اپوزیشن کو ہوا کیونکہ اپوزیشن لیڈر کو اپنا سیاسی کیس پیش کرنے کا موقع ملا،البتہ ان کے یہ کہنے کہ انہیں خواجہ آصف کے خلاف بیان دینے کو کہا گیا،
سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواجہ آصف کے حوالے سے مقدمات کی تیاری ہے۔ شہباز شریف نے نیب کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے خلاف کارائیوں کو نیب اور حکومت کا گٹھ جوڑ قرار دے ڈالا۔یقینا اس کا اثر حکومت اور نیب دونوں پر پڑے گا۔ جبکہ دوسری جانب ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے پاکستان لائرز فاؤنڈیشن کی درخواست پر سماعت کی جس میں شہباز شریف کی گرفتاری کو چیلنج کیا گیا۔ مدعی کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے دلائل میں یہ اعتراض اٹھایا کہ انکوائری مکمل اور جرم ثابت ہونے سے قبل نیب کا ملزم کو گرفتار کرنا آئین کے آرٹیکل 10 کی خلاف ورزی ہے۔درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں انکوائری مکمل ہونے اور جرم ثابت ہونے سے قبل گرفتار کیا گیا، آئین کے تحت آزاد اور منصفانہ ٹرائل ہر ملزم کا بنیادی حق ہے لیکن چیئرمین نیب نے شہباز شریف کو یہ حق نہیں دیا۔درخواست گزار تنظیم کے وکیل کے مطابق چیئرمین نیب کا دوران انکوائری کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار آئین سے متصادم ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ شہباز شریف کی گرفتاری آئین سے متصادم ہونے پر چیئرمین نیب کا شہباز شریف کی گرفتاری کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی ضمانت منظور کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔