اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ ن کے رہنما عدالت نےطلال چوہدری کی معافی کی استدعاقبول کرنےسےانکارکردیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ عدالت میں فیصلے برادریوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ انصاف کے ترازو کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری توہین عدالت سزاکیخلاف انٹراکورٹ اپیل پرسماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں5رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے طلال چودھری کی سز ا کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل مستر د کردی۔ سماعت کے دوران عدالت میں لیگی رہنما کی تقریر کا کلپ بھی چلایا گیا۔ چیف جسٹس نے طلال چودھری سے استفسار کیا کہ کن لوگوں کویہ پی سی او کےبت کہہ رہے ہیں؟ طلال چوہدری کیا بت شکن ہے؟ ہم یہاں بےانصافی کر رہے ہیں کیا؟ چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ طلال چوہدری کی سزامیں توسیع کیلئےدرخواست کیوں نہیں دی گئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ابھی ہم نوٹس کردیتے ہیں۔ نوازشریف کومخاطب ہوکرطلال چوہدری بولتا رہا۔ نوازشریف نےبھی عدلیہ کیخلاف بات کرنےپرطلال چوہدری کونہیں روکا ۔ جولوگ جلسےمیں باتیں سن رہےتھےانکوبھی نوٹس جاری کرتے ہیں ۔ انہوں نے طلال چودھری سے پوچھا کہ کیااپنےوالدین کیلئےبھی ایسےالفاظ بولتے ہیں؟ ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ مجھےبھی کل کسی نےکہاکہ ہماری برادری کابندہ ہے اسکومعاف کردیں۔ فیصلےبرادریوں پر ہوتے ہیں یاترازوپرہوتےہیں، انہوں نے طلال چودھری کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ میرٹ پر دلائل دیں ہم معافی کی استدعا قبول نہیں کر رہے۔
طلال چودھری کی انٹر کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے طلال چودھری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آج بھی معافی مانگنے کے لئے تیار نہیں ہیں ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ یہ کسی کی ذات کی بات نہیں بلکہ ادارے کی بات ہے۔طلال چودھری کے جرم میں 5 سال کی سزا مناسب ہے ۔ان ریمارکس کے بعد طلال چودھری نے کہا کہ ہم علامتی طور پر پی سی او کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران طلال چودھری کی تقریر کی ویڈیو بھی چلائی گئی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کس بت کو نکالنے کی بات کی تھی آپ نے؟ طلال چوہدری لےکرآؤان میاں صاحب کوجن کوآپ مخاطب کرتےرہے، بلائیں ان میاں صاحب کو کیا وہ ہمیں نکال سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران طلال چودھری کے وکیل کامران مرتضیٰ نے موقف اپنایا کہ طلال چوہدری کاکوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں، سزاکےباعث طلال چوہدری وکالت بھی نہیں کرسکتے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے پہلےکونسی وکالت کی؟ان کا پیشہ ہی سیاست ہے، پہلےق لیگ کےپیچھےکھڑےرہےاب ن لیگ کےساتھ ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے استسفار کیا کہ طلال چوہدری آپ مجھےبتائیں کہ آپ نےکبھی وکالت کی،جس پر طلال چودھری نے جواب دیا کہ جی سرلیکن بہت کم وکالت کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم ان کی معافی قبول نہیں کر رہے۔ آپ دلائل دیں میرٹ پر کیس کو سنیں گے۔