پانامہ پیپرز کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ ارکان اسمبلی کو آئین کی آرٹیکل 62 اور 63 میں دیئے گئے معیار پر پرکھا جائے تو پھر پارلیمنٹ میں سینیٹر سراج الحق کے علاوہ کوئی بھی رکن نااہل ہونے سے نہیں بچ سکے گا۔ آرٹیکل 62 اور 63 جو جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئین میں شامل کی گئی تھی کے بارے میں اس وقت جبکہ یہ آرٹیکل آئین میں شامل کی جا رہی تھی یہ کہا جا رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق اس آرٹیکل کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے ارکان کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حاموں اور اس کی قیادت کے بارے میں ان کے مخالفین کا تصور یہ تھا کہ یہ لبرل لوگ ہیں۔ پی پی پی کے مخالفین اس پارٹی کو ’’کھاؤ پیو‘‘ پارٹی بھی کہتے تھے۔ پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 ء میں انتخابی مہم کے دوران ایک جلسہ میں یہ کہہ دیا تھا کہ ’’میں بہت زیادہ کام کر کے جب تھک جاتا ہوں تو تھوڑی سی پی لیتا ہوں‘ میں لوگوں کا خون تو نہیں پیتا‘‘ اس انتخابی مہم میں بھٹو کے مخالفین یہ الزام لگاتے تھے کہ مسٹر بھٹو اور ان کے پارٹی کے لیڈر مہ نوش ہیں۔ بھٹو صاحب کے اس اعتراف کے بعد قومی اتحاد کے لیڈروں نے 1977 ء کی انتخابی مہم میں پاکستان میں نظام مصطفیٰؐ نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور اس کے سوشلزم کے سیاسی فلسفہ کو سخت ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا۔ اس پس منظر میں جب آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا گیا تھا تو اس کا محرک یہ تھا کہ صوم و صلوۃ کے پابند‘ صالح اچھی شہرت رکھنے والے اور قومی خزانے میں خیانت نہ کرنے والے افراد کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہونی چاہئے۔
اس وقت سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ 1985 ء میں ہونے و الے غیر جماعتی انتخابات اور اس کے بعد اب تک ہونے والے سارے انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلیاں وجود میں آتی رہی ہیں اور جو حکومتیں بنتی رہی ہیں ان کے ادوار میں بدعنوانی میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اب تو کرپشن اس قدر پھیل چکی ہے کہ ساری قوم نہ صرف پریشان بلکہ خوف زدہ ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔ آج آرٹیکل 62 اور 63 کے بارے میں سروے کرایا جائے تو عوام کی بھاری اکثریت اس کے حق میں رائے دے گی۔ پاکستانی اب اچھی شہرت کے مالک‘ صالح اور ایسے لوگوں کو منتخب اداروں میں دیکھنا چاہتے ہیں جو قومی خزانے پر ہاتھ صاف نہ کریں جو پاکستان سے پیسہ باہر منتقل کر کے آنے والی نسلوں کو ’’اچھا مستقبل‘‘ دینے والے نہ ہوں۔
اگلے انتخابات میں اب سال سوا سال رہ گیا ہے سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ یہ سال انتخابی سرگرمیوں کا سال ہے۔ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ 2018 ء کے انتخابات کے بعد کیا ہو گا؟ کیا سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا؟ یا 2018 ء کے انتخابات پاکستان میں کوئی تبدیلی لائیں گے؟
تبدیلی کی خواہش رکھنے والے طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان میں فی الحال کوئی بڑی جوہری تبدیلی تو نہیں آ سکتی۔ لیکن کم سے کم یہ تو ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات منصفانہ ہوں۔ اگلے انتخابات کے لئے جو الیکشن کمشن بنے وہ غیرجانبدار اور صاف ستھرے کردار رکھنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ یہ الیکشن کمشن اگر آرٹیکل 62 اور 63 میں دیئے گئے معیار پر امیدواروں کو پرکھے تو اگلی اسمبلیوں میں پچاس فیصد ایسے لوگ آ جائیں جو صاف ستھرے کردار کے مالک ہوں اور خائن نہ ہوں تو قوم ایک واضح فرق محسوس کرے گی۔ اسمبلیوں میں اگر اچھے کردار والے نمائندے پہنچ جائیں تو شاید وہ خدا کا خوف کریں اور ملکی مسائل کی طرف دھیان دیں۔ لوٹ مار کو روکیں۔ اسمبلیوں میں اچھے نمائندوں کے آنے سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔
اس سے اگلا مرحلہ پاکستان کی سول سروس کی اصلاح ہے۔ لیری کولنز اور ڈومینک نے اپنی مشہور کتاب آدھی رات میں آزادی میں جو برصغیر کی تقسیم اور قیام پاکستان کے بارے میں ہے لکھا ہے کہ انگریزوں نے اپنے دور میں برصغیر پر صرف آٹھ ہزار انگریز سول افسروں کے ذریعے سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ان آٹھ ہزار انگریز افسروں کو جب تقرری کے لئے برصغیر میں بھیجاجاتا تھا تو انہیں تین ہدایات دی جاتی تھیں انہیں بتایا جاتا تھا کہ برصغیر میں انہوں نے بطور سول سرونٹ صرف اور صرف انصاف کرنا ہے۔ اگر آپ انصاف کریں گے تو کروڑوں لوگوں کا آپ پر اعتماد قائم ہو گا۔ دوسری ہدایت ان افسران کو یہ دی جاتی تھی کہ انہوں نے کسی طرح کی بدعنوانی میں ملوث نہیں ہونا اگر وہ رشوت خوری میں پڑ گئے تو ان کی ساکھ تباہ ہو جائے گی۔ فریڈم ایٹ مڈنائٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برصغیر میں انڈین سول سروس میں کام کرنے والے انگریز افسران کو یہ ہدایت بھی تھی کہ وہ برصغیر میں مذہبی اور ثقافتی معاملات میں بھی مداخلت نہ کریں۔ اس پالیسی کے تحت انگریز نے سو سال سے زیادہ عرصہ تک کروڑوں لوگوں پر حکمران رہے۔ بزرگ لوگ جنہوں نے انگریزوں کا دور دیکھا ہے وہ ہمیشہ اس دور کے بارے میں کہتے ہیں کہ انگریزوں کا دور انصاف کا دور تھا تقسیم کے بعد انڈین سول سروس کے جو افسر پاکستان کے حصے میں آئے تھے انہوں نے بھی اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیئے۔ اگر پاکستان کی موجودہ سول سروس جو سیاسی دھڑے بازی کا شکار ہے اور مال بنانے میں سیاست دانوں سے دوہاتھ آگے ہے اس کی اصلاح کر لی جائے تو دربدر ٹھوکریں کھانے والے پاکستانیوں کو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں پچاس فیصد دیانت دار لوگ اسمبلیوں میں آجائیں سول سروس کی اصلاح کر لی جائے اور عدلیہ اگر اپنی صفائی خود کر لے اور لوگوں کو انصاف دینے لگے تو پاکستان یقیناً بدل جائے گا لوگوں کو جب انصاف نہیں ملتا تووہ نہ صرف مایوس ہوتے ہیں بلکہ وہ قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔