لاہور (ویب ڈیسک) قومی کرکٹ ٹیم پانی کی سی فطرت کے ساتھ میدان میں ہے۔ پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے۔ قومی ٹیم بھی اپنا راستہ بناتی جارہی ہے۔ پانی بھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے۔ کبھی کبھی ہمارے کرکٹرز بھی بھاپ کر یوں اُڑتے ہیں کہ ہم نشان ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں نامور کالم نگار ایم ابراہیم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور لاچار ہوکر کہنا پڑتا ہے : ع ۔۔ تِری تلاش میں جائیں تو ہم کہاں جائیں ۔۔ خالص پانی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ ہماری ٹیم بھی ایسی ہی ہے۔ یہ کسی بھی وقت کوئی سا بھی رنگ اپنے پر چڑھاسکتی ہے اور وہ بھی اس طور کہ لوگوں کیلئے پہچاننا مشکل ہوجائے۔ شرم ناک ناکامی سے شروع ہونے والا ورلڈ کپ کا سفر بھرپور کامیابی کی طرف جاری ہے۔ دیواریں گرتی جارہی ہیں‘ نئی امنگ ہے‘ نئی لگن ہے اور اِس طرف قوم بھی نئی اُمید کے خمار میں ہے۔ کرکٹ کیا ہے‘ یہ تو جناب : ع ۔۔ امید و آرزو کا انوکھا رچاؤ ہے ۔۔ بہت کچھ بھارت اور انگلینڈ کے میچ کے نتیجے پر منحصر ہے اور اس کے بعد پاکستان کی راہ میں صرف بنگلہ دیش دیوار ہے۔ یہ شاید ٹورنامنٹ کا جاندار ترین میچ سمجھا جانا چاہیے‘ کیونکہ پاکستان کیلئے فتح لازم ہے۔ اس فتح ہی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ پاکستان کی حتمی منزل سیمی فائنل کا مرحلہ ہوگا یا واپسی کا ٹکٹ۔ بھارت سے شکست کے بعد سے تو پاکستان کیلئے ہر میچ ہی فائنل ثابت ہوتا آیا ہے۔ 1992ء کے ورلڈ کے سوا کسی بھی ورلڈ کپ میں پاکستان کو ایسے جاں گُسل مرحلے سے گزرنا نہیں پڑا۔ ایک زمانے سے ہم کسی اعصاب شکن میچ کی راہ دیکھ رہے تھے۔ افغانستان کی مہربانی سے یہ آرزو پوری ہوئی۔ پتنگ کنّوں سے کٹتے کٹتے رہ گئی۔ معاملہ کچھ ایسا انداز اختیار کرگیا کہ ”عزتِ سادات‘‘ کا بچانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا۔ ذہن کے کسی بھی گوشے میں یہ گمان تک نہ تھا کہ افغانستان کی ٹیم پاکستان پر وختا ڈال سکتی ہے۔ یہ ورلڈ کپ کیا ہے‘ حیرت انگیز اتفاقات کا مجموعہ ہے۔ پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز جیسی کمزور ٹیم کے مقابل 105 رنز کے ٹوٹل پر آؤٹ ہونے والی پاکستانی ٹیم نے اگلے میچ میں انگلینڈ کو پچھاڑا جو ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ پر ہے۔ تب سے اب تک انگلینڈ کی ٹیم سنبھل نہیں سکی ہے۔ ناقابلِ یقین قرار دی جانے والی پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ میں ناقابلِ شکست چلے آرہے کیویز کو بھی خوب ہرایا اور ایک دنیا کو حیران کیا۔ کس نے سوچا ہوگا کہ پاکستانی سکواڈ افغانستان جیسی بے بی ٹیم سے میچ کے آخری اوور کی چوتھی گیند پر جیت پائے گی! کسی نے خوب کہا ہے: ؎ دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کِھلونا ہے ۔۔۔ مل جائے تو مٹی ہے‘ کھو جائے تو سونا ہے ۔۔ اس بار ورلڈ کپ میں پاکستانی سکواڈ نے خود کو جادو کا کِھلونا ہی تو ثابت کیا ہے۔ جادو کا کِھلونا کبھی سونا بن کر سامنے آیا اور کبھی مٹی کا ڈھیر۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ اچھا خاصا سونے کا ٹکڑا مٹی کا ڈھیر ثابت ہوتے رہ گیا۔ افغانستان سے ٹاکرے میں معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔ سب کچھ ہاتھ سے جاتے جاتے رہ گیا۔ افغانستان کیلئے اس ٹورنامنٹ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ ہارتی ہی آرہی تھی‘ مگر جاتے جاتے پاکستان پر وختا ڈال دیا۔ گویا: ع ۔۔ بہت ”گند‘‘ کی مہرباں جاتے جاتے! ۔۔ میچ کیا تھا‘ رولر کوسٹر تھا جس پر قوم سوار تھی یا یوں کہیے کہ قومی ٹیم نے سوار کرادیا تھا۔ ایک آسان سے میچ کو انتہائی غیر یقینی مقابلے میں تبدیل کرنا کچھ قومی ٹیم ہی کا خاصا ہے۔ تگڑی ٹیموں کے مضبوط باؤلرز کا پامردی سے سامنا کرنے والے ہمارے بلے باز شدید غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹیں گنواکر میچ جیتنے اور قوم کیلئے مسرت کا سامان کرنے کی ذمہ داری باؤلرز‘ یعنی ٹیل اینڈرز کے ناتواں کاندھوں پر ڈال گئے۔ عماد وسیم‘ عامر خان اور وہاب ریاض نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ ان تینوں کو جس قدر بھی سراہا جائے‘ کم ہے۔ میچ کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سرفراز احمد نے کہا کہ آج کی کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے! ٹیم ورک؟ جو کچھ عماد وسیم‘ شاداب اور وہاب ریاض نے کیا اُس میں ٹیم ورک کہاں سے آگیا؟ ٹاپ بیٹنگ آرڈر نے تو لُٹیا ڈبونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ سرفراز کو حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عماد وسیم اور وہاب ریاض کو پورا کریڈٹ دینا چاہیے تھا۔ ہاں‘ کپتان کا معاملہ خاصا پُراسرار اور افسوس ناک ہے۔ اُن کی باڈی لینگویج بتارہی ہے کہ معاملات ویسے نہیں جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ میدان میں اُن کا دیگر کھلاڑیوں سے بالخصوص بیٹنگ کے دوران رابطہ ایسا نہیں‘ جسے سراہا جاسکے۔ وہ سینئر کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے اپنا حق ادا نہیں کر رہے۔ سب سے بڑی الجھن تو یہ ہے کہ وہ‘ بظاہر‘ سٹرائک لینے سے ‘یعنی باؤلرز کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ اس کی نفسی توجیہ شاید ہے کہ وہ زیادہ دیر وکٹ پر نہیں رہنا چاہتے ‘تاکہ ناکامی کی صورت میں الزامات سے بچ سکیں۔ پہلے بھی ایک میچ میں انہوں نے باؤلر کو سٹرائیک اینڈ دے دیا تھا‘ جس پر خاصی تنقید ہوئی۔ افغانستان سے ٹاکرے کے دوران بھی وہ‘ بظاہر‘ سٹرائکر اینڈ پر جانے سے بچنے کی کوشش میں غیر ضروری طور پر دوسرا رن لیتے ہوئے رن آؤٹ ہوئے۔ اُس وقت وکٹ پر اُن کا موجود رہنا لازم تھا۔ اگر رنز بنانا ممکن نہیں تھا تب بھی وہ ایک اینڈ بچانے کی کوشش تو کرسکتے تھے۔ افغانستان کے خلاف فتح سے ہم سیمی فائنل کے امیدوار کی حیثیت سے مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر مائیکل ایتھرٹن نے دو دن قبل کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف فتح پاکر (اور آسٹریلیا کے ہاتھوں نیوزی لینڈ کی شکست سے) پاکستانی ٹیم ایسی بلی بن جائے گی ‘جو کبوتروں کے پنجرے میں جا گھسے! دنیا نے دیکھ لیا کہ بلی کبوتروں کے ٹھونگوں سے کس طرح بال بال بچی ہے! ہمیں ناقابلِ یقین ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا۔ انگلینڈ ہماری راہ میں ایک بڑی دیوار بن کر کھڑا ہوا ہے۔ بھارت سے مقابلے کے بعد اُسے نیوزی لینڈ کا سامنا کرنا ہے۔ ان دونوں میچوں کے نتائج ہی پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اور ہاں‘ آخر میں ہمیں بنگلہ دیش سے ٹکرانا ہے۔ یہ ٹاکرا غیر معمولی حد تک اعصاب شکن ثابت ہوسکتا ہے۔ بنگلہ دیش بھی سیمی فائنل تک رسائی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاسکتا ہے اور لگانا ہی چاہیے۔ یہ میچ ہمیں ایسے کھیلنا ہے کہ ایک ایک گیند پر متوجہ رہا جائے۔ بنگلہ دیش کو ہم سے قبل بھارت سے ٹکرانا ہے۔ ہمارے لیے ورلڈ کپ میں اب کیا بچا ہے اور کیا نہیں؟ اس کا فیصلہ بھی ہماری اپنی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مقابلوں کے نتائج پر منحصر ہے۔ یہ بہت عجیب صورتِ حال ہے۔ دل میں کبھی ترنگیں سی اٹھتی ہیں اور کبھی یہ بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ کھیلوں کی دنیا ایسی ہی ہے۔ ہم نے کم بیک کرلیا ہے‘ یہی بہت ہے۔ ایونٹ کی بس نکل رہی ہے کہ ہم دوڑ پر پھر چڑھ گئے۔ زہے نصیب‘ قومی ٹیم کے حوصلے بلند ہیں اور وہ فتوحات کے ذریعے قوم کی آرزوؤں کو نئی توانائی بخشنے کے حوالے سے پُرعزم ہے۔ قوم نے بھی دعائیں کرنے میں تساہل سے کام لیا ہے ‘نہ تاخیر سے۔ افغانستان کے خلاف ”شاندار فتح‘‘ کو بھی قوم کی دعاؤں ہی کا نتیجہ کہیے۔ بس اب: ؎ ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے ۔۔ نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم ۔