اسلام آباد(ایس ایم حسنین) ستمبر 2011 کے دہشتگردی کے واقعے کے بعد امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ کے آغاز کے بعد امریکی ظلم وزیادتی کی علامت سمجھا جانے والا گوانتاناموبے کا حراستی مرکز جہاں سب سے عمر رسیدہ پاکستانی قیدی سیف اللہ پراچہ کی رہائی کے لیے ان کی وکیل پرامید ہیں۔ وکیل کے مطابق پراچہ کی رہائی کے لیے نئی امریکی انتظامیہ امید کی ایک نئی کرن ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر اوباما انتظامیہ کی جانب سے گوانتانامو میں بند قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے اور انھیں رہا کرنے کے عمل کو ختم کردیا تھا۔ امید کی جارہی ہے کہ نئی امریکی حکومت کے تحت یہ عمل دوبارہ شروع ہوگا۔ غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد ایک مرتبہ پھر امید کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ گوانتانامو کے قیدیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مثبت راستہ تلاش کرے گی۔ لیکن گوانتانامو بے کے بارے میں جو بائیڈن کے حتمی ارادے ابھی تک غیر واضح ہیں۔ اس بارے میں صدارتی عہدے کی منتقلی کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ نومنتخب صدر گوانتانامو کو بند کرنے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے منصوبوں پر تفصیل سے تبصرہ کرنا نامناسب عمل ہوگا۔ گزشتہ سولہ برس سے بغیر کسی الزام کے گوانتانامو بے کے حراستی مرکز میں قید پاکستانی سیف اللہ پراچہ ذیابیطُیس اور دل کے امراض میں مبتلا ہیں۔ 73 سالہ پراچہ کیوبا میں امریکی بیس پر قائم گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کے سب سے عمر رسیدہ قیدی ہیں۔ پراچہ کی وکیل شیلبی سلیوان بیلس ان کی رہائی کے حوالے سے ریویو بورڈ کی سماعت کے لیے پر امید ہیں۔ انہوں نے 19 نومبر کو سماعت کے بعد خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اب انہیں زیادہ امید اس لیے بھی ہے کیونکہ قیدیوں کی رہائی پر نظرثانی کے عمل کو نظر انداز کرنے والی انتظامیہ اب نہیں رہی ہے۔ گوانتانامو بے کی جیل میں اب تک کل 9 قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں سات قیدیوں کی موت خودکشی کرنے سے جبکہ ایک قیدی کینسر کے مرض سے اور ایک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کرگیا۔ 73 سالہ سیف اللہ پراچہ کو سن 2004 میں دہشت گردی کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اور کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی ان کو گوانتانامو جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ حکام کا الزام ہے کہ وہ القاعدہ کے ایک ’سہولت کار‘ ہیں، جس نے 11 ستمبر کے حملوں میں ملوث دو سازشیوں کی مالی مدد کی تھی۔ پراچہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ ن کے بیٹے عزیر پراچہ کو سن 2005 میں نیویارک کی ایک وفاقی عدالت میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ گوانتانامو کے ریکارڈ میں موجود انہی شواہد کی بنیاد پر سنایا گیا جن کی بنیاد پر سیف اللہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں نیو یارک کے ایک جج نے یہ شواہد رد کردیے اور پھر حکومت کی جانب سے نیا مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح عزیر پراچہ کو رہا کردیا گیا اور انہیں پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ سیف اللہ کی وکیل نے اس مرتبہ ریویو بورڈ کی سماعت میں ان کی ناقص صحت کے معاملے کو اٹھایا ہے کیونکہ پراچہ کو سن 2006 میں دل کا دورہ بھی پڑ چکا ہے۔ پراچہ کی وکیل کے بقول، اب نو منتخب صدر کے ہاتھ میں فیصلہ ہے اور اگر اس معاملے میں مزید دیری ہوئی تو پراچہ کے لیے یہ ’سزائے موت کی سزا‘ ہوگی۔ سیف اللہ کی وکیل نے اس مرتبہ ریویو بورڈ کی سماعت میں ان کی ناقص صحت کے معاملے کو اٹھایا ہے کیونکہ پراچہ کو سن 2006 میں دل کا دورہ بھی پڑ چکا ہے۔ پراچہ کی وکیل کے بقول، اب نو منتخب صدر کے ہاتھ میں فیصلہ ہے اور اگر اس معاملے میں مزید دیری ہوئی تو پراچہ کے لیے یہ ’سزائے موت کی سزا‘ ہوگی۔
گوانتانامو بے کسی زمانے میں عالمی غم و غصے کا اہم سبب تھا۔ گوانتانامو کے حراستی مرکز کو دہشت گردی کے جواب میں امریکی ظلم و زیادتی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد ایک مرتبہ پھر امید کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ گوانتانامو کے قیدیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا مثبت راستہ تلاش کرے گی۔ لیکن گوانتانامو بے کے بارے میں جو بائیڈن کے حتمی ارادے ابھی تک غیر واضح ہیں۔
اس بارے میں صدارتی عہدے کی منتقلی کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ نومنتخب صدر گوانتانامو کو بند کرنے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے منصوبوں پر تفصیل سے تبصرہ کرنا نامناسب عمل ہوگا۔
واشنگٹن میں ہیومن رائٹس واچ کی نائب ڈائریکٹر آندریا پراسو کے خیال میں اگر یہ معاملہ ایک بہت بڑا پریس ایشو نہیں بنتا ہے تو اس کے جلد بند ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
گوانتانامو بے جیل کی کہانی
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں کے بعد 2002ء میں یہ حراستی مرکز قائم کیا تھا۔ القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے مشتبہ افراد کو تفتیش اور جیل میں ڈالنے کے لیے کیوبا میں امریکی نیوی کے ایک اڈے گوانتانامو بے پر ایک حراستی مرکز قائم کیا گیا تھا۔ سن 2003 میں یہاں 50 مختلف ملکوں کے تقریباﹰ 700 افراد قید تھے۔
سن 2009 میں گوانتانامو میں قیدیوں کی تعداد 242 تھی جبکہ آج وہاں 40 افراد قید ہیں۔ کیوبا میں واقع گوانتانامو کے حراستی مرکز پر امریکا کی سالانہ 445 ملین ڈالر لاگت آتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانامو میں قائم امریکی عسکری حراستی مرکز کو آئندہ بھی قائم اور زیر استعمال رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل سابق امریکی صدر باراک اوباما انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید دباؤ کے باجود اسے مکمل طور پر بند کرنے میں ناکام رہے تھے۔