بلاشبہ میں نے دانستاً روشن خیالی کے شاخسانوں کی بات محدود دائرے میں کی تھی اس کا تعلق بعض دانشوروں کی توضیحات اور روشن خیالی کی آڑ میں ایسی خواہشات اور مطالبات سے تھا جن کی اجازت نہ ہمارا دین دیتا ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ان کے لئے گنجائش موجود ہے۔ کالم کا دامن محدود ہوتا ہے اس لئے میں نے تصوراتی دنیا میں قدم رکھنے سے گریز کیا ورنہ میں تو نیوٹن کی ایجادات، لوتھر کی نسلی امتیاز کے خلاف تحریک سے لے کر سرسید کی تعلیم کے لئے جدوجہد اور کالج کا قیام، علامہ اقبال کے فلسفہ خودی، مرد مومن، شاہین اور خطبہ الٰہ آباد سے ہوتے ہوئے محمد علی جناح کے رولٹ ایکٹ کے خلاف استعفے اور مسلمانوں کے لئے ایک آزاد ریاست کے مطالبے کوبھی روشن خیالی کی اعلیٰ مثالیں ہی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک غلامی، جہالت، نسلی امتیاز، استحصال، ملوکیت، ظلم وستم، پسماندگی، مذہبی شدت پسندی و تنگ نظری، فرقہ واریت، دہشت گردی وغیرہ کے خلاف جدوجہد بلکہ جہاد روشن خیالی ہے۔ لیکن کوئی مسلمان بہ قائمی ہوش و حواس قرآن مجید سے ماورا سوچ کی تلقین کرے تو وہ الحاد کے دائرے میں قدم رکھنے کے مترادف ہے کیونکہ مسلمان کی سوچ و فکر کا سرچشمہ کلام الٰہی ہوتا ہے۔ درست کہ آئین کی شق 20 نے کسی عقیدے کی تخصیص نہیں کی لیکن یاد رہے کہ شق 20 میں لفظ مذہب استعمال ہوا ہے اور مذہب سے مراد مروج مذاہب عیسائیت، ہندو ازم، بدھ مت،سکھ وغیرہ ہیں نہ کہ الحاد۔ اگر اسے تکفیر کی خرابی کا جرم سمجھا جائے تو ہماری حالیہ تاریخ میں اس کے پہلے مجرم علامہ اقبال ہیں جنہوں نے دین سے ماورائیت کو الحاد کہا ہے۔ ہر اسلامی ریاست اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتی ہے اور یہی ریاست مدینہ اورخلفائے راشدین کا ایک اہم پہلو تھا۔ ہمارا آئین اور ہمارا دین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں اس لئے اس پر بحث لاحاصل ہے۔ اسلامی اور مذہبی ریاست میں اولین فرق یہی ہوتا ہے کہ مذہبی ریاست دوسروں پر اپنا عقیدہ مسلط کرتی ہے جبکہ اسلامی ریاست غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دیتی ہے۔ سیرت نبویؐ میں مثالیں موجود جب غیر مسلموں کے مقدمات کے فیصلے ان کے اپنے مذہب کے مطابق کئے گئے۔ قائد اعظم نے بار بار وضاحت کی کہ پاکستان مذہبی ریاست ہر گز نہیں ہوگی، پاکستان کے آئین و قانون وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائےگی، پاکستان میں شریعت نافذ ہوگی اور پاکستان ایک اعلیٰ پائے اسلامی ریاست ہوگی۔ اس لئے قائد اعظم قانون کی حکمرانی، مساوات و انسانی برابری، معاشی عدل، انصاف وغیرہ کی بات باربار کرتےتھے۔ وہ جاگیرداری کے خاتمے کےلئے بھی پرعزم تھے کیونکہ بقول قائد اعظم ہمارے جاگیردارغریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ ان کا تصور پاکستان ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کا تصور تھا۔ ہمارا موجودہ آئین بھی انہی اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان آزادیوں کو دین و مذہب کے دائرے تک محدود ہونا ہے لیکن اگردانشور دانشوری کے شاخسانے پھیلاتے ہوئے جمہوریت اور آزادی کی آڑ میں مے نوشی و عصمت فروشی جیسی آزادیاں طلب کرنےلگیں، شخصی آزادی کے بہانے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی خواہش کریںتو اسے کیا کہا جائےگا؟۔ یاد رہے کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے کئی سال قبل جولائی 1944 میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان میںشراب پرپابندی ہوگی۔ (قائد اعظم کے شب و روز مؤلفہ خورشید یوسفی صفحہ 10)حالانکہ قائداعظم ایک روشن خیال، نہایت ذہین اوربصیرت سے مالا مال راہنما تھے۔ البتہ حقِ مذہبی آزادی کے تحت ان اقلیتوں کو شراب نوشی کی قانونی اجازت ہے جن کا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ ایسا مذہبی ریاست میں نہیں ہوسکتا۔ یہی فرق ہے کہ شریعت کے اطلاق اور شریعت کے نفاذ میں۔جب تک آپ مسلمان ہیں اسلامی ریاست میں آپ پر شریعت کا اطلاق اور نفاذ ہوگا۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101 بار اور قیام پاکستان کےبعد چودہ بار پاکستان اور اسلام کے حوالے سے بات کی اور عوام کو یقین دلایا کہ پاکستان کے آئینی، قانونی او ر معاشرتی ضابطوں اور ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ 46-1945 کے انتخابی جلسوں کے دوران بھی اسی تصور کے لئے ووٹ مانگے۔ جمہوری تقاضوں کے مطابق کئی بار کہا کہ پاکستان کا آئین عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق تشکیل دیا جائےگا۔عوام کی امنگوں کی ترجمانی بہرحال منتخب دستور ساز اور قانون ساز اسمبلی کرتی ہے۔ پھر یہ کہہ کر بحث کو انجام تک پہنچادیا کہ پاکستان ایک پریمیئر (اعلیٰ درجے کی) اسلامی ریاست ہوگی۔ اسی لئے مجھے حیرت ہوتی ہے جب ہمارے بعض دانشوران آئیں بائیں شائیں کرکے اس حوالے سے ابہام اور کنفیوژن پھیلاتے ہیں۔ کبھی قائدا عظم کی تقاریر کے چند فقروں کو مسخ کرکے اور ان میں من پسند الفاظ اور غلط ترجمہ کرکے غلط بیانی کے مرتکب ہوتے ہیں اورکبھی یہ کہہ کر قائد اعظم کے خیالات کی نفی کرتے ہیں کہ وہ مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھتے تھے۔ میں آئندہ آپ کو ٹھوس مثالیں دوں گا کہ کس طرح قائد اعظم کے اصلی الفاظ کو بدلا گیا اور ان کا مفہوم سے ہٹ کر ترجمہ کرکے انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ سیکولر دوست اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ بنیادی تاریخی حقائق کو بدل دیتے ہیں اور ایسے ایسے بے بنیاد دعوے کرتے ہیں جن کا کوئی نام و نشان ہی نہیں۔ قائد اعظم کا جگن ناتھ آزاد سے ترانہ لکھوانا ایسی ہی ایک مثال ہے۔ گزشتہ دنوں روشن خیالی کا ایک شاخسانہ پڑھنے کو ملا اور میں اس جھوٹ پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک بڑے کالم نگار نے انگریزی میں لکھا تھا کہ قرار داد مقاصد کا مسودہ قائد اعظم کو دکھایا گیا تو انہوں نے اسےمسترد کردیا۔ میں نے ثبوت مانگا تو وہ غائب ہوگئے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران لکھی گئی ایسی ’’بہتانی‘‘تحریروں کے نمونے میرے پاس محفوظ رکھے ہیں جنہیں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ان حضرات کو کون سمجھائے کہ اسلامی ریاست میں دین اور سیاست الگ الگ نہیں ہوتے، آئین، قانون، اصول وغیرہ دین کی روشنی میں مرتب ہوتے ہیں اور قائد اعظم پرسیکولر ازم کا الزام لگانامحض بہتان ہے۔جب انہوں نے کئی بار یہ کہا کہ پاکستان کا آئین اسلامی اصولوں کے تابع ہوگا تو پھر سیاست دین و مذہب سے الگ کیسے ہوگئی؟ قائداعظم کے وژن کو سمجھنے کے لئے ان کی سینکڑوں تقاریر کا مطالعہ ناگزیر ہے اور اس دور کے زمینی حقائق کو بھی ذہن میں رکھنا حد درجہ ضروری ہے۔ ان کی سینکڑوں تقاریر سے صرف نظر کرتے ہوئے بھی گیارہ اگست کی تقریر سے ایک فقرے کا مطلب سمجھنا نہایت آسان ہے۔ ’’ عقیدے کا ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں‘‘ کا مطلب اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے اوریہ یقین دہانی کہ عقیدے کی بنیاد پرکسی سے کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ دوستو! یہ ایک اسلامی ریاست کابنیادی اصول ہے اور اسی اصول کے تحت اقلیتوں کو حکومتی ڈھانچے میں حصہ دینے کے لئے جوگندر ناتھ منڈل اور سر ظفر اللہ خان کو مرکز میں وزارتیں دی گئی تھیں اور بہت سے غیر مسلموں کو اہم عہدوں پر برقرار یا تعینات کیاگیا تھا۔ کچھ اہم باتیں رہ گئیں۔ یار زندہ صحبت باقی۔
بشکریہ جنگ