تحریر: ساجد حسین شاہ
جب بھی ظلم اپنے عروج کو پہنچتاہے تب تب مظلوموں کی جماعت میں سے ایسے ایسے رہنما جنم لیتے ہیں جو ظلم کے اندھیروں کو مٹانے کے لیے آ واز کو بلند کر تے ہیں اور یہی صوتی طا قت ظالم کو بے نقاب کرتی ہے اور عام عوام ظلم کے سا منے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جاتی ہے بھا رت اپنے یوم آزادی سے ہی کشمیریوں کے خون کی ندیاں بہا کر ان پر اپنے فیصلے مسلط کیے ہو ئے ہے اور دنیا کے سا منے بڑی مکا ری سے یہ ظاہر کر تا ہے کہ کشمیر میں دہشت گرد پنپ رہے ہیں جنھیں پاکستان کی پشت پنا ہی حاصل ہے انہی جھوٹے دعوں کو لے کر کئی بھا رتی رہنما اقوام متحدہ میں بڑی دیدہ دلیری سے تقاریر کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھو نک دیں گے اور کشمیر میں اپنی ظلم کی داستانیں وہ یوں ہی رقم کر تے رہیں گے اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی ۔ہمیشہ سے ہی جھوٹے لوگ اپنے آپ کو سچا ثابت کر نے کے لیے مکا ری کا سہارا لیتے ہیں جن لو گوں کی با ت میںسچائی کا عنصر شا مل ہوتا ہے وہ اسے بھر پور انداز میں مکمل شواہد کے سا تھ منظر عام پر لاتے ہیں نہ کہ جھوٹے پلندوں کا سہارا لیں۔
9 فروری 2013 کی صبح بد نام زمانہ تہاڑ جیل میں مقبوضہ کشمیر کے ایک مظلوم شہری افضل گرو کو پھا نسی کے تختہ دار پر ناحق لٹکا کر انصاف کو شر مندہ کیا گیا افضل گرو کی پھانسی کو انتہائی پوشیدہ رکھا گیا اور وہیں قر یبی علا قے میں دفنا دیا گیا جس پر یہ جھو ٹا الزام لگا یا گیا کہ وہ بھا رتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ہے۔ 13 ستمبر 2001 ہند وستا نی پا رلیمنٹ کا اجلا س جا ری تھا تقر یبا سا ڑھے گیارہ بجے پا نچ مسلحہ افراد سفید ایمبیسڈر کار میں آ ئے جسمیں ایک دھما کے خیز ڈیوائس نصب تھی جب وہ پارلیمنٹ کے گیٹ سے داخل ہوئے تو سیکورٹی اہلکاروں نے انھیں روکنا چاہا تو انہوں نے گاڑی سے کود کر فائرنگ شروع کر دی اس تبادلے میں تمام حملہ آور مارے گئے جب کہ آٹھ سیکورٹی اہلکار بھی مارے گئے پولیس کے مطابق دہشت گردوں کے پاس اتنا بارود تھا کہ وہ آسانی سے پارلیمنٹ کی عمارت کو زمین بوس کر سکتے تھے اور اتنا اسلحہ کہ فوجیوں کی ایک پوری بٹالین کو بھی مات دے سکتے تھے پارلیمنٹ کے حملے کے اگلے ہی دن دہلی پو لیس نے یہ دعو ے شروع کر دیے تھے کہ حملے میں ملوث بہت سا ر ے لو گوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے با رہ افراد کو اس سا زش میں شراکت کے جرم میں مجرم قرار دیا گیا جن میں جیش محمد کے طارق احمد، غا زی بابا، مسعود اظہر اور اسی طرح تین کشمیری باشندے شوکت حسین ، ایس اے آر گیلانی اور محمد افضل گرو شا مل تھے تین کشمیری با شندوں کو زیر حراست لیا گیا افضل گرُو کے خلاف کو ئی ٹھوس ثبوت نہ ملے مگر ہندوستانی حکومت اور تمام جنگجو ذرا ئع ابلاغ کی کاوشوں کے بعد اس پر دہشت گرد ہونے کی مہر ثبت کر دی گئی۔
مقدمے کے آغاز سے ماحول ہی ایسا ترتیب دیا گیا کہ بات پھانسی کے پھندے پر رکی۔ بھا رتی انصاف کے علمبرداروں نے انصاف کے ساتھ ایسی نا انصافی کی کہ انکے اپنے ہی سر جھک جائیں انصاف کی تمام شقوں کو پس پشت ڈال کر صرف عوام کے جذبا ت کو مد نظر رکھا گیا بھارتی سرکار نے ان عناصر کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اور عوام کے نا جا ئز غصے کو ٹھنڈا کر نے کی خا طر ایک مظلوم کو ناحق مار ڈالا جسکا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے کشمیر میں ہو نے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ افضل گرو کی موت نے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے دلوں کو بہت سے خدشا ت سے دو چا ر کر دیا اس واقعے کے بعد دلی سر کار نے مقبو ضہ کشمیر میں ظلم کی نئی داستانیں رقم کر نا شروع کر دیں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نو جو انوں کو حراست میں لیا گیا اور کئی نوجوان شہید کر دیے گئے گیدڑ کی کھا ل میں چھپے یہ سو رمے نہتے اور مظلوم کشمیریوں کو شہید اور حر اساں کر کے اپنے اپنے آپکو بڑے جواں مرد تصور کرتے ہیں بھارت میں یہ روایت بنتی جا رہی ہے کہ جو کو ئی ظلم کے خلا ف آ واز بلند کرتا ہے اسے دہشت گر د کا لقب دے کر ابدی نیند سلا دیا جا تا ہے مگر شا ید ان کی یا داشت انکا سا تھ نہیں دے رہی کہ انہوں نے کئی افضل گرُو جیسے مظلوم اور بہا در مسلمانوں کو شہیدکیا لیکن کشمیر میں روز اول سے لے کر آ ج تک کئی افضل گرو آئے اور کئی آئیں گے وہ اس بات کو سمجھنے سے قا صر ہیں کہ وہ جتنے افضل گرُو وں کو بے گناہ شہید کر کے انھیں اعلیٰ مقا م واصل کر یں گے تو اس ظلم کے خلاف ا تنے ہی اس راہ پر اور آ ئیں گے اور جنت نظیر وادی کشمیر کو ان درندوں کے ناپا ک قدموں سے پا ک کر یں گے انشاء اللہ۔
سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواہاں بھارت جو پچھلے چھ دہائیوں سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے خلاف ہٹ دھر می سے ڈٹا ہواہے اور دنیا کے سا منے یہ ظاہر کر تا ہے کہ کشمیر اسکااٹوٹ انگ ہے اور کشمیری بھا رت کے سا تھ الحا ق پر رضا مند ہیں اسکی اس غیر منطقی اور غیر حقیقی دلیل پر سو ائے تر س کے کچھ نہیں کہا جا سکتااگر کشمیری بھا ت کے سا تھ الحا ق کے خو اہش مند ہو تے تو بھارت کو کبھی بھی کشمیر میں اپنے سات لاکھ سے زائد سپاہی اس چھوٹی سی وادی میں تعینات نہ کر نا پڑتے جو آئے دن کشمیر یوں کے خون سے اپنے ہا تھ دھو تے ہیں اور انکی عزتوں کو پا مال کر نے سے بھی گریز نہیں کر تے۔ افضل گرُو نے نو فروری کو اپنی شہا دت سے ایک گھنٹہ قبل ایک تحریر لکھی جو اسکی بیوہ نے بھا رتی اخبا رت کو فخر یہ انداز میں پیش کی جسکا متن کچھ اسطر ح تھاآ غا ز بسمہ اللہ سے کیا گیا تھا لکھا گیا تھا کہ محترم اہل خا نہ اور اہل ایمان اسلا م علیکم!اللہ پا ک لا کھ لا کھ شکر ہے کہ اس نے مجھے اس مقام کے لیے چنا با قی میری طر ف سے اہل ایمان کو بھی مبا رک ہو کہ ہم سب سچا ئی اور حق کے سا تھ رہے اور حق اور سچا ئی کی خا طر آ خرت ہمارا اختتام ہوا اور اہل خانہ کو میری طر ف سے گزا رش ہے کہ میرے اس اختتا م پر افسو س کے بجا ئے اس مقام کا احترام کر یں اللہ پا ک آ پ سب کا حا می و نا صر ہے اللہ حا فظ۔یہ اس مر د آ ہن کے آ خری الفاظ تھے جسے پڑھ کر حو صلے پست ہو نے کے بجا ئے مز یدبلند ہو تے ہیں مو ت تو ہر جاندار کو آنی ہے اس حقیقت پر تو دنیا کے تمام مذاہب کے لو گ متفق ہیں لیکن ایسی عظیم موت جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے ہو اور اسمیں اللہ کی رضا مندی بھی شا مل ہو ہر جا ن کو نصیب نہیں ہو تی مگر ایسی شاندار موت کا ہر مسلمان خواہش مندبھی ہوتا ہے۔
تحریر: ساجد حسین شاہ ریاض، سعودی عرب
engrsajidlesco@yahoo.com
00966592872631