تحریر: حبیب اللہ سلفی
بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے الزام میں افضل گورو شہیدکی پھانسی کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں جس پر حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں ، جے کے ایل ایف اور دیگر کشمیری جماعتوں کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ پورے کشمیر میں دعائیہ تقریبات کا انعقاد اور شہداء کی قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ شہید افضل گوروگیارہ برس تک بھارتی جیلوں میں قید رہے اور پھر اچانک انہیں انتہائی رازداری سے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ان کی پھانسی کی اطلاع کشمیری قوم کو بھارتی ٹی وی چینلز کے ذریعہ ملی اور پھر جموں کشمیر کے کونے کونے میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیریوں میں اس پھانسی کا اتنا شدید ردعمل تھا کہ بھارتی فورسز کی جانب سے جموں کشمیرمیں سخت ترین کرفیو نہ لگایا جاتاتو کشمیر کا ہر چوک تحریر سکوائر کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج، سی آر پی ایف اور دیگر فورسز کی طرف سے سکیورٹی انتظامات اور درجنوں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود طویل عرصہ تک جموں کشمیر میں حالات معمول پر نہیں آسکے اور نہتے کشمیری اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔
محمد افضل گورو کی زندگی علم، فن اور جدوجہد سے عبارت تھی۔47 سالہ افضل گورو شمالی قصبہ سوپور کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مقامی سکول سے 1986 میں میٹرک کرنے کے بعد ہائر سیکنڈری کیلئے سوپور کے مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ میں داخلہ لیا۔جب کشمیر میں 1990 کے آس پاس مسلح تحریک شروع ہوئی تو افضل ایم بی بی ایس کے تھرڈ ایئر میں تھا۔ اسی اثنا میں انہوں نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ جدوجہد آزادی میں بھرپور انداز میں شریک رہے اور پھر1991میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیکر وہاں سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔افضل دہلی میں سات سالہ قیام کے بعد 1998میں اپنے گھر کشمیر واپس لوٹ آئے۔وہ وادی میں واپس لوٹ کر شادی کے بعد محض اپنے دوائیوں کے کاروبار میں مصروف تھے لیکن بھارتی فورسز کے ظلم و زیادتیوں کا عالم یہ تھا کہ ماضی میں جے کے ایل ایف کے ساتھ ملکر جدوجہد آزادی میں حصہ لینے پر انہیں ہر روز مقامی آرمی کیمپ میں حاضر ہونا پڑتا اور ٹاسک فورسز کی طرف سے جان لیوا زیادتیاں کی جاتیں۔اس دوران کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ان پر اتنا تشدد کیا گیا کہ انہیں مردہ حالت میں پھینک دیاجاتا رہا۔13دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور 15دسمبر کوانہیں ادویات لیکرسوپور جاتے ہوئے گرفتار کر لیاگیا اور بھارت لیجاکر جیل میں بندکر دیا گیا۔
افضل گورو کا معاملہ غیر منصفانہ اور شکوک و شبہات سے بھرا پڑا ہے۔گرفتاری کے بعد سے مئی 2002 تک افضل گورو کو کوئی وکیل فراہم نہیں کیا گیا۔ان کے خلاف سب سے بڑی شہادت کے طور پر جو اعترافی بیان پیش کیا گیااور جس سے انہوںنے واضح طور پر انکار کیا’ اس کی قلم بندی کے وقت افضل گورو کا کوئی قانونی مشیر موجود نہیں تھا۔18 دسمبر 2002 کو افضل گورو، ایس آر گیلانی اور شوکت حسین کو پارلیمنٹ حملہ کیس میں سزائے موت سنا ئی گئی۔بعد ازاں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کے نتیجے میں ایس آر گیلانی اور افشاں گیلانی کو باعزت بری اور شوکت حسین کی سزائے موت کو 10 سال کی سخت سزا میں تبدیل کر دیاگیالیکن افضل گورو کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا جاتاہے۔
استغاثہ کے 80 گواہان میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہیں دیا کہ افضل گورو کا کسی عسکری تنظیم سے کبھی کوئی تعلق رہا ہو یا اس نے کبھی کوئی معاونت فراہم کی ہو۔بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت واضح طور پر یہ بات لکھی کہ اگرچہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا مگر معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے سزائے موت ضروری ہے۔افضل گورو کو اس کیس میں اپنے دفاع کے لئے صحیح معنوں میں وکیل دیاہی نہیں گیا۔کیس کے آغاز میں ہی اگر قانونی مشیر میسر آجاتا تو شاید یہ معاملہ اتنا آگے نہ بڑھتا۔خود بھارتی ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ افضل کے خلاف مقدمہ ناقص تفتیش، واقعاتی ثبوت اور پولیس کے مشتبہ کردار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔اس ساری صورتحال پرہم سمجھتے ہیں کہ افضل گورو کی پھانسی انصاف کا خون اور عدالتی قتل تھاجس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ بھارت سرکار کی طرح ان کی عدالتوں میں بھی انصاف کے پیمانے مسلمانوں اور ہندوئوں کے لئے الگ الگ ہیں۔بھارتی قانون میں یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی شخص کو پھانسی دینے سے قبل اس کی ملاقات اہل خانہ سے کروائی جائے گی لیکن افضل کی پھانسی میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ جس وقت انہیں پھانسی دی جارہی تھی وہاں ایک ڈاکٹر، ایک مجسٹریٹ اور جیل حکام کے چند افسران سمیت ایک مولوی صاحب موجودتھے جنہوں نے پھانسی کے بعد انکی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے بعد دو دن پہلے تیار کی گئی لحد میں اتار کرانتہائی رازداری کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔بعض بھارتی حکام کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ گورو کے اہل خانہ کوسپیڈ پوسٹ کے ذریعہ انکی پھانسی کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے اہل خانہ میں سے کوئی لاش لینے ہی نہیں آیا اس لئے انہیں وہیں دفن کیا گیا ہے افضل کے اہلِ خانہ کے مطابق یہ بات سرے سے غلط ہے۔
پھانسی کے تین دن بعد تہاڑ جیل حکام کا وہ خط جو دہلی جنرل پوسٹ آفس سے ڈاک کے ذریعہ روانہ کیا گیا تھا موصول ہوا جس میں انہیں گورو کی رحم کی اپیل مسترد ہونے اور پھانسی دیے جانے کی اطلاع تھی۔ یہ ایک سنگین قسم کا مذاق تھا جو ان کے اہل خانہ اور پوری کشمیری قوم کے ساتھ کیا گیا۔ بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اس نے لاشوں کو بھی اپنے ملک میں قید کر رکھا ہے اور پوری کشمیری قوم کے مطالبہ کے باوجود افضل گورو اور مقبول بٹ کے جسدخاکی واپس کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ایسے ملک کے عدالتی نظام سے انصاف کی کیا امید کی جاسکتی ہے جہاں پھانسیاں اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے دی جائیں اور جہاں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی جیسے درندوں کو تو ہیرو سمجھا جاتا ہو مگر اپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کودہشت گردقرار دیکر پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا جائے۔
بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کے مبینہ ملزم افضل گورو کی طرح ممبئی حملوں میں ملوث قرار دیکر پھانسی پر چڑھائے گئے اجمل قصاب کے کیس میں بہت زیادہ مماثلت پائی جاتی ہے۔دونوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور دونوں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ گورو کو چھ ماہ بعد وکیل فراہم کیا گیا تو اجمل کے کیس کے آغاز میں ہی بمبئی کی بار ایسوسی ایشن نے وکلاء کو کیس لڑنے سے روک دیا۔ جن وکلاء نے کیس لڑنے کا اعلان کیا ان پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے تشدد کیاجاتا رہا۔ وکیلِ صفائی عباس کاظمی کو تمام گواہوں پر جرح کے جرم میں فارغ کردیا گیا ، بار بار وکیل تبدیل کئے جاتے رہے اور قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ افضل پر پارلیمنٹ حملہ کیس میں صرف 197 دنوں میں سزا کا فیصلہ سنادیا گیاتو ممبئی حملہ کیس میں بھی6 مئی 2009 کو فردِ جرم عائد کی گئی اور 362 دنوں میں سزا کا فیصلہ سنا دیا گیا۔اجمل قصاب کا بھارت میں پھانسی کی سزا پانے والوں میں 309 واں نمبر تھا۔
دسمبر 2012 تک بھارت میں 477 لوگ ایسے تھے جن کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی تھی لیکن عمل درآمد باقی تھا مگر اجمل کوانتہائی عجلت میں پھانسی دے دی گئی۔بھارت کی اعلی عدالتوں نے افضل گورو کی پھانسی کے ذریعہ سے جس طرح اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جمہوری روایات اور اقدار کی دعویدار بھارت سرکار قانون اور انصاف کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔آخر میں ‘ میں یہاں ایک اور بات کہنا چاہوں گا کہ ہمیں بھارتی وزارت داخلہ کے سابق اعلیٰ افسر ستیش ورماکے اس بیان کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جس میں انہوںنے کہا تھا کہ ممبئی اور پارلیمنٹ حملے خود بھارت نے کروائے تھے تاکہ انسداد دہشت گردی قوانین مزید سخت کرنے کیلئے راستہ ہموار کیا جائے۔ ان کا یہ دعویٰ بہت زیادہ غور طلب ہے کیونکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا توپریونشن آف ٹیررسٹ ایکٹویٹیز ایکٹ(پوٹا) نامی قانون نافذ کیا گیا اور جب نومبر 2008ء میں ممبئی حملے ہوئے تو ‘ان لافل ایکٹوٹیز پریونشن ایکٹ (یو اے پی اے) میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔آر ایس مانی اس وقت شہری ترقیات کی وزارت میں اعلیٰ افسر تعینات ہیں جب کہ ستیش ورما جونا گڑھ پولیس ٹریننگ کالج’ کے پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔یہ دونوں انڈیا کی انتہائی ذمہ دار شخصیات ہیں ان کی باتوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جب یہ باتیں کھل کر واضح ہو چکی ہیں کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ، مکہ مسجد، مالیگائوں اور دہلی ہائی کورٹ بم دھماکوں میں انتہا پسند ہندو تنظیمیںملوث تھیں اور پارلیمنٹ و ممبئی حملوں میں بھی بھارت سرکارکے ملوث ہونے کا اقرار کیا جارہا ہے تو حکومت کو بھی محض بھارتی دبائو پر ممبئی حملوں کے الزام میں ذکی الرحمن لکھوی سمیت دیگر افراد کو جیل میں نہیں ڈالے رکھناچاہیے۔ بھارتی ذمہ داران کاعلی الاعلان یہ کہنا کہ ان رہنمائوں کو ہمارے دبائو پر حراست میں رکھا گیا ہے’ پوری پاکستانی قوم کی توہین ہے۔قوم سوال کرتی ہے کہ کیا ان محب وطن رہنمائوں کو مظلوم کشمیریوں کی مددوحمایت کرنے اور دفاع پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سزاد ی جارہی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روش درست نہیں ہے۔ ملک و ملت کے دوستوں اور دشمنوں میں فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور انہیں فی الفور رہا کرنا چاہیے۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ : 0321-4289005