اسلام آباد ; ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے نتیجے میں ’’نمبر گیم‘‘ (ہندسو ں کا کھیل) تبدیل ہونے سے تحریک انصاف کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔جہاں تک دوبارہ گنتی کا تعلق ہے کہ کانفرنس کے دوران درست کہا گیا کہ امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کی جانب سے پولنگ اسٹیشن
یا امیدوار یا اس کے الیکشن ایجنٹ کی جانب سے ریٹرننگ افسر کے دفتر میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ’’ری کائونٹنگ‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ ایک قانونی اصطلاح ہے جس کے لئے امیدوار کو درخواست دینا ہوتی ہے اور یہ درخواست قبل یا مسترد بھی ہوسکتی ہے۔ ری کائونٹنگ کو کسی مناسب لفظ کے ساتھ تبدیل کیا جاسکتا ہے جسے از سر نو گنتی یا گنتی کا دوسرا یا تیسرا رائونڈ کہا جاسکتا۔الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر انتخابی نتائج گو کہ اب حتمی لیکن غیر سرکاری ہیں۔ انہیں غیر سرکاری نتائج کہنا چاہئے۔ دوبارہ گنتی کے نتیجے میں کراچی، گجرات اور خیبرپختون خوا کے انتخابی حلقوں میں نتائج تبدیل ہوئے لیکن قانون کے تحت اسے سرکاری طور پر دوبارہ گنتی قرار نہیں دیا جاسکتا۔تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو قومی اسمبلی کی 157 نشستیں حاصل ہوں گی جبکہ سادہ اکثریت کے لئے 172 نشستیں درکار ہوں گی۔ اس طرح تحریک انصاف نمبر گیم میں 15 نشستیں پیچھے ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)اور سندھی قوم پرستوں کے اتحاد جی ڈی اے کی حمایت سے یہ تعداد 164 ہو جائے گی۔ تب بھی تحریک انصاف کو حکومت سازی کے لئے ایم کیو ایم کے ساتھ مزید ایک ووٹ کی حمایت درکار ہوگی۔
موجودہ صورتحال میں جو اُمیدوار ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئے ان کی اضافی نشستوں کو منہا کئے جانے کے بعد، 13 میں سے 10 آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد محفوظ نشستوں کو ملا کر مجموعی تعداد 152 ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ق) اور اے ایم ایل کے شیخ رشید احمد کو ملا کر 157 بنتے ہیں۔ بی اے پی کی 5 اور جی ڈی اے کی دو نشستوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ 164 ارکان بنتے ہیں۔ اسی طرح سادہ اکثریت کے لئے تحریک انصاف کو مزید 8 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ خواتین کی ایک مخصوص نشست ملنے کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 7 ہو جائے گی۔ حکومت سازی کے لئے پھر بھی مزید ایک رکن کی حمایت چاہئے۔ دوسری جانب محفوظ نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے ایوان زیریں میں ارکان کی تعداد 82، پیپلزپارٹی 57، بی این پی ایم 2 اور آزاد 3 جن میں محسن داور اور علی وزیر کے علاوہ ممکنہ طور پر فخر امام شامل ہو سکتے ہیں۔ اے این پی اور جمہوری وطن پارٹی کی ایک ایک نشست ملا کر یہ تعداد مجموعی طور پر 161 ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا
کہ خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی عددی قوت بڑھ جائے گی۔ عمران خان ، طاہر صادق اور غلام سرور خان کے علاوہ ممکنہ طور پر پرویز خٹک جنہیں دوبارہ وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ وزیراعظم کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 108 رہ جائے گی۔ تحریک انصاف کے اسد قیصر اور فواد چوہدری نے قومی کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی بھی نشستیں جیتی ہیں۔ خواتین کے لئے محفوظ نشستوں پر چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کی عددی قوت کے اعتبار سے تحریک انصاف کا پنجاب سے 17، خیبرپختونخوا سے 8، سندھ سے تین اور بلوچستان سے ایک نشستوں پر حق بنتا ہے۔ اسے اقلیتوں کی 5 محفوظ نشستیں بھی ملیں گی۔ ان مجموعی طور پر 34 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف کی 152 نشستیں ہو جائیں گی۔ مسلم لیگ (ق) کو پنجاب سے خواتین کی ایک نشست مل سکتی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 157 بنتی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 82، پیپلزپارٹی کی 57، متحدہ مجلس عمل 15، بی این پی ایم 2، اے این پی ایک، جمہوری وطن پارٹی ایک اور آزاد تین کے ساتھ یہ مجموعی تعداد 161 ہوگی۔