counter easy hit

امریکا کی کہانی پھر یاد آگئی

تقریباً چار سو برس گزر گئے یا اس سے کچھ زیادہ، ٹرمپ نے پھر یاد دلایا کہ ہم مہذب لوگ کون ہیں۔ ایک نئے ملک کی تلاش میں نکلے اور آخرکار اب یہ ہمارا ملک ہے، مغربی یورپ، اسپین، نیدرلینڈ، جرمنی، انگلینڈ اور آس پاس کے لوگ بحری جہاز بھر بھر کے آتے رہے اور پورے شمالی امریکی ریاست پر قابض ہوگئے اور اب ہم سفید فام لوگوں کی آبادی تقریباً 32.5 کروڑ ہے۔ یہودی ہماری آبادی کا تقریباً 1.9 فیصد ہیں، اسی طرح اس سرزمین کے اصل مالک ریڈ انڈین بھی بہت کم رہ گئے ہیں، کیونکہ ہماری ان سے دوبدو جنگ ہوئی تھی۔

ہم تہذیب والے آتشیں اسلحہ چلانے میں ماہر اور وہ تھکے ہوئے تیر کمان چلانے والے، بالآخر وہ سرنگوں ہوئے، ہم مہذب جمہوری لوگ، وہ مغلوب انسان اب تک نہ اٹھ سکے۔ ہمیں دنیا کی دوسری قوموں کی ضرورت تھی، وہ آتے گئے اور بستے گئے، اسی طرح کئی سو برس گزرے، جمہوریت بھی پروان چڑھی، دوسری عالمی جنگ میں ہم نے اپنے آبائی لوگوں کا بھرپور ساتھ دیا، یہاں تک کہ ہم نے اپنے دشمن کے دو اہم شہروں پر ایٹم بم بھی گرائے اور آج بھی وہاں ہماری فوجیں موجود ہیں۔ ہماری جمہوریت پھلتی پھولتی گئی، ہمارے درمیان کبھی جنگ و جدل نہ ہوا۔

ہم میں ایک مرد انسان ابراہم لنکن بھی گزرا جس نے تمام امریکیوں کو اعلیٰ مقام دیا۔ ہر ایک کو شیر و شکر بنا کر ملک میں رکھا۔ غلامی ختم کی۔ سیاہ کو سفید کے برابر مقام دیا۔ کیونکہ رنگت خوں دونوں کی سرخ ہے۔ دنیا میں تہذیبوں کی ترقی کی رفتار بڑھتی گئی، مگر امریکا کے حاکمانہ مزاج میں نو آبادیاتی رنگ بڑھتا گیا، غلبہ کی سیاست نے اور ملکوں کے درمیان تقسیم در تقسیم کی سیاست کی وجہ سے خانہ جنگی اور پراکسی وار نے جنم لیا اور ملکوں ملکوں میں قتل و غارت گری، خصوصاً مسلم ممالک میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی لگائی آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ داعش کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کا قتل، لہٰذا صدیوں پرانی تہذیب کو چھوڑ کر ملک بدر ہوئے۔ گھروں کے لاڈلے سایہ دیوار کو ترستے رہے۔

امریکا کے سابق صدر نے فرار کی راہ تو رہنے دی تھی مگر 45 ویں صدر نے سرمایہ دار کی آنکھ سے دیکھا اور چشم پھیر لی، یہ انداز بظاہر ان کا حب الوطنی کا ہے مگر ہرگز ایسا نہیں، یہ وہ عناصر ہیں جن کا دین و مذہب پیسہ ہے۔ مسند صدارت پر بیٹھتے ہی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ خود دور کیوں جائیں، ان کے جسٹس ڈپارٹمنٹ میں شور مچا ہوا ہے۔ اپنے اٹارنی جنرل کو جس انداز میں انھوں نے فارغ کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو حلف اٹھایا اس میں یہ واضح کیا کہ وہ کسی رنگ اور نسل یا مذہب کے خلاف امتیازی سلوک روا نہیں رکھیں گے۔

مگر انھوں نے یہ امتیازی سلوک مسلمانوں کے خلاف روا رکھا۔ اگر ان کے صدارتی حکم نامے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس امتیازی عمل سے جو تین ماہ تک روا رکھیں گے اس سے کسی کی اصلاح ممکن ہوگی، بلکہ اس سے ایک قسم کا ردعمل پیدا ہوگا اور ایئرلائن سروس کو خاصا نقصان ہوگا اور خاص طور سے سرد ممالک سے گرم ممالک کی طرف سیاحت اور تفریحی موسم ہے۔ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو یہ ایک قسم کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں، اس سے کسی قسم کا مسئلہ حل ہونے کا نہیں۔ کیونکہ یہ کشتی کے مقابلے کراتے تھے تو ہارنے والے کو گنجا کروا دیا کرتے تھے، یہ شوبز کے چٹکلے بازی کے عادی ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بھارت کی ریاست بہار کے ایک سابق وزیراعلیٰ لالو پرشاد کے انداز سے ملتا ہوا انداز ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ وہ یہ سب پٹنہ میں کیا کرتے تھے اور اب یہ تماشے وہائٹ ہاؤس میں ہوا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کا مقابلہ اگر روسی صدر کے مدمقابل ہوا تو یہ بالکل کسی مقابلے کا نہ ہوگا اور عالمی سطح پر امریکا کا وقار مجروح ہوگا۔ عالمی سطح پر بغیر کسی سبب امریکا میں امریکی صدر کے خلاف اور برطانیہ میں بڑے مظاہرے ٹرمپ کی آمد کے خلاف ہو رہے ہیں۔ جب کہ ایران کے صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کے خلاف جوابی ردعمل کا عندیہ دیا ہے۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا خواب جو ٹرمپ نے دیکھا تھا وہ بھی میکسیکو نے رد کردیا ہے۔ ظاہر ہے زور زبردستی کی یہ منطق کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک نہایت چھوٹے ملک کیوبا کے صدر راہول کاسترو نے خبردار کیا ہے کہ وہ زور زبردستی اور بالادستی کی سیاست کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔

جیساکہ میں پہلے کالموں میں یہ لکھ چکا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نسبتاً کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیڈر ہیں، اسی لیے ان کا انداز گفتگو بھارتی ریاست بہار کے حاکم لالو پرشاد جیسا ہے۔ ابھی حال میں انھوں نے امریکی دوا ساز کمپنیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ دواؤں کی قیمتوں میں کچھ کمی کریں۔ ایسی معمولی مراعات عوام کو دینے کے لیے وہ پلان بنا رہے ہیں۔ مگر ڈاکٹری کی مد میں جو امریکی اخراجات ہو رہے ہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ اگر سچ پوچھا جائے تو امریکا سچ ایک فارما اسٹیٹ ہے۔ دوا بنانے والے، ڈاکٹر اور فارماسسٹ ہی سب سے بڑی کلاس ہیں۔

ان پر اوباما نے ٹیکس کی حد کردی تھی مگر ٹرمپ نے ان کو سہولت دی اور وہ کامیاب ہوئے۔ مگر چند سکوں کا عوام کو ریلیف دیا گیا، جیساکہ پاکستان کے سیاست داں کھیل کھیلتے ہیں، یہی ڈونلڈ ٹرمپ کا شیوہ ہے۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے قرین قیاس سے کہ ڈیموکریٹ قانونی جنگ جاری کرنے کو ہیں۔ عالمی افق پر جو 120 دن کی پرواز پر قدغن لگائی گئی ہے اس کا اثر امریکی فضائی کمپنی کو بھگتنا پڑے گا۔

دنیا کے بیشتر مغربی ممالک نے 7 مسلم ممالک پر سفر کی جو پابندیاں لگائی ہیں اس پر کسی نے حمایت نہ کی، بلکہ یہ ایک قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اور اگر بغور دیکھا جائے تو امریکا ایک ایسا ملک ہے جو مہاجرین کی سرزمین کہلوانے کے لائق ہے۔ کوئی پہلے آن بسا اور کوئی بعد میں، مگر اسلامی ممالک اور امریکا کے خلاف کوئی فوری قدم اٹھانے سے اجتناب برت رہے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر تیل و متعلقہ امور نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور پذیرائی کی اور ان کے عمل کو مستحسن قرار دیا، اور مزید فرمایا کہ ہمیں امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکا سعودی عرب سے آئل امپورٹ کرتا رہے گا۔ مگر خود امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دور اختلافی امور کا دور ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جلد یا 100 دنوں کے اندر اندر اختلافی موضوعات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کیونکہ 7 مسلم ممالک میں عراق جو امریکا کا اتحادی تھا، اس کو بھی امریکا کی جانب سے ہزیمت اٹھانی پڑی اور موصل کی جنگ جو داعش کے خلاف عراقی فوج کی جنگ ہے۔ امریکا کسی حد تک داعش کا مخالف نظر آرہا تھا، فی الوقت وہ خاموشی سے یا یوں کہیے کہ عالمی جنگی امور پر امریکا کا کوئی موقف نہیں ہے۔ یہ وہ موقع ہے کہ روس کو جس سمت بھی جانا ہے اس کے لیے کھلا راستہ ہے، وہ جس رخ پر چاہے عمل کرتا رہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی نتائج سے قبل جو کچھ گفتگو نیٹو کے متعلق کی وہ سیاق اور سباق سے اس قدر دور تھی کہ لگتا تھا کہ نیٹو عملی طور پر ختم ہوچکا ہے۔

اس قسم کے موضوعات پر بغیر سوچے سمجھے گفتگو کرنا ایک افسوسناک اور ناقابل بھروسہ انداز گفتگو ہے اور خصوصاً ایک ایسے ملک کے لیے جہاں غور و فکر کے بعد گفتگو کی جاتی ہو۔ اب بے خیالی میں گفتگو کرنا امریکا پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کی حکومت ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کی مدت 3 ماہ کے لیے ہے اور بعد ازاں کوئی نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری ہوگا۔ گویا ہر سیزن کے لیے ایک نیا پروموشنل پلان تیار کیا جا رہا ہے۔ جب کہ ملکوں کے منصوبے موسم کی بنیاد پر تیار نہیں کیے جاتے بلکہ وہ دوررس بنیادوں پر تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ بغور دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو کمپنی کی طرز پر چلانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

گویا ہر تین ماہ پر ایک نئی منصوبہ سازی ہوگی، لہٰذا ناپائیدار سطحی سیاسی عمل ہوگا اور 5 سالہ یا4 سالہ حکمت عملی نام کی کوئی چیز اب امریکا میں موجود نہیں۔اسی لیے بار بار امریکا کا ماضی آنکھوں میں آتا رہتا ہے، جیسے یہ کل کی بات ہے اور ملک کو ایک نئے اور ناپائیدار انداز میں چلانے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ جیسے کہ امریکا کوئی نیا ملک ہے اور اس کو چلانے کے لیے منصوبہ سازی کی ضرورت ہے اس لیے لوگوں کو امریکا کی تاریخ بار بار یاد آتی رہے گی جو ملک کے حکمرانوں کے لیے نازیبا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website