تحریر: محمد جواد خان
6 ستمبر 1965 کا دن افواج ِ پاکستان کے ساتھ پوری پاکستانی عوام کی آزمائش کا دن تھا جس آزمائش پر ثابت قدم رہتے ہوئے پاک فوج کے زندہ دل نوجوانوں نے ہمت و حوصلے سے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب اس انداز میں دیا تھا کہ ان کے کھانے کے دانت تک توڑ کر ان کے ہاتھوں میں دے دیئے تھے ۔ اسی طرح 7ستمبر 1974 کا وہ دن جب دفاعیان ِ ختم رسالت نے قادیانیت کے منہ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ رہتی دنیا تک یہ تاریخ بن گیا کہ کوئی بھی آئندہ کھل کر معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ نبوت کے درجے کا دعویٰ تک کرنے کا خیال بھی نہیں کرے گا۔
تاریخ ڈھونڈے کی ثانی محمد ۖ ارے ثانی تو دور سایہ نہ ملے گا ہم مسلمان اور ہمارا ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہمارا عقیدہ و ایمان اس بات پر متفق ہو اور ہم دل سے اس حق کو بیان کر رہے ہوں کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد عربی ۖ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔دنیا ِ عالم میں دین اسلام آخری دین، قرآن مجید آخری آسمانی کتاب، شریعت محمدی ۖ آخری شریعت اور امت محمدی ۖ آخری امت ہے نہ اس کے بعد کوئی نبی آ سکتا ہے اور نہ کوئی نئی شریعت نافذ ہو سکتی ہے، آیا ت ِ قرآنی ، احادیث نبوی ۖ ، فرمودات ِ صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین، اور تعلیمات ِ اولیائے اللہ رحمتہ اللہ علیہ سب میں ایک ہی عقیدہ بار بار بیان کرتے ہوئے عقیدہ ختم ِ نبوت کو زندہ جاوید کیا گیا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے اولین شرط ہی عقیدہ ختم نبوت ہے۔۔۔ وگر نہ دیگر کچھ ۔۔۔کچھ نہیں ۔۔۔ماسوائے خاک ۔۔۔
مرزا غلام احمد قادیانی اس فتنے اور بد بخت شخص کا نام ہے جس کا ظاہر بدصورت اور باطن بددین تھا، یہ انگریز سرکار کے سایہ رحمت تلے پلنے والا وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا امتحان لینے کے لیے نبوت کا دعویٰ اس لیے کیا کہ مسلمانوں کو شدید جھٹکا دے سکے مگر وہ اس بات سے انجان تھاکہ میرے اس جھوٹے دعویٰ کے بعد ہر شخص ایک ہی نعرہ لگانے شروع ہو جائے گا کہ “کہہ دو گستاخ مصطفی ۖ کو ۔۔۔ان پے مر مٹنے کا جذبہ آج بھی زندہ ہے”۔ اس فتنہ نے جیسے ہی سر اُٹھایا تو ہر طرف سے مسلمانوں کا جذبہ ایمانی ابھرنے لگا، سب نے اپنے مسلکی ، مذہبی اور خاندانی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے میدان ِ کار ساز میں اترنے کا فیصلہ کر لیااور کھلے عام قادیانی سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس وقت علماء کرام اور مشائخ سے بھری بادشاہی مسجد، عوام کا رش و جذبات نے وہ وقت بھی دیکھا جب وقت کے ولی اللہ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے قادیانی کو شکست سے اس طرح پاش پاش کیا کہ تمام امت ِ محمدیہ ۖ کے سامنے عقائد حق اور باطل کا فیصلہ ہو گیااور ختم نبوت کے نعروں نے پورے لاہور شہر کو جگا دیا۔ عوام کا اس کفرانہ فتنے کو رد کرنے کے بعد جب باری آئین کی آئی تو رہی سہی کسرحضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اس تاریخ ساز بیان (جو انھوں نے قومی اسمبلی کے حال میں کھڑے ہو کر کیا تھا )نے پوری کر دی تھی۔ اور بھٹو صاحب مرحوم نے شاہ احمد نورانی صاحب کو گلے لگا کر بولا تھا کہ آج آپ نے امت محمدیہ ۖ کو اس فتنے سے بچا لیا۔ ۔۔
وہ وقت تھا قادیانیت کے عقیدے کو پامال کرنے کا جوبر وقت کر دیا گیا اور آئندہ آنے والی نسلوں تک یہ بات بیان کر دی کہ قادیانی قافر ہے نہ کہ مسلم اب ہمارے بھی کچھ فرائض بنتے ہیں کہ ہم بھی کریں تاکہ یہ فتنہ دوبارہ سرنہ اُٹھا سکے ، سب سے پہلے ہم کو اپنے مرکز سے رشتہ جوڑنا ہو گا، اپنے درمیانی اختلافات کو ختم کرنا ہو گا، اپنے علماء اور اکابرین کی عزت و تکریم کرنی ہو گی گوکہ وہ کسی بھی مسلک کے کیوں نہ ہو۔۔۔(کیونکہ تمام مسالک عقیدہ ختم رسالت ۖ پر ایمان رکھتے ہیں)۔ اپنے سے کمزور کا خیال رکھنا ہو گا، دین ِاسلام کے خلاف اُٹھنے والی ہر سازش کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا، یہ ہی نہیں کہ نعرے تو ہم سڑکو ں پر لگاتے ہوں مگر نہ چہرے پر سنت محمدی ۖ ہو اور نہ ہی آقا دوجہاں حضرت محمدی عربی ۖ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کی پابندی ہو۔ ہماری سوچ اور زندگی صرف کھانے سے شروع ہو کر بستر پر سونے تک بنی ہوئی ہے ، بہت تیر مار لیں تو کسی سیاسی کے حمایتی بن جاتے ہیں مگر امتی نہیں بنتے ، نماز کی پابندی اس لیے نہیں ہوتی کہ آفس کا کام رہ جائے گا، سفر تھوڑ ا لیٹ ہو جائے گا اور داڑھی اس لیے نہیں رکھتے کہ معاذ اللہ چہرے پر بال اچھے نہیں لگتے ، بوڑھے ہو کر رکھ لیں گئے، بیوی منع کرتی ہے۔۔۔ذرا سوچو ۔۔۔!!! اب وقت ہے عملی مسلمان بننے کا نہ کے دلائل دینے کا۔۔۔کیونکہ عملی مسلمان ہی ہر فتنے کو ختم کرنے کے لیے پہلا ہتھیار ہے۔۔۔
چھوڑو داڑھی مبارک کے ڈیزائن بنانے کو ، چھوڑے داڑھی شدہ انسان کو مولوی کہنا، بدلو اپنے آپ کو ۔۔۔ زمانہ خود بدلے گا۔۔۔ہر سیاسی پارٹی ہر شخص قابل عزت و تکریم ہے مگر اس کی حمایت کرو جو خود جماعت کروانے کی طاقت تو دور، نماز کا بولنا تو دو رجلسے کے دوران آذان کی آواز آجاتے ہی کم از کم اپنی تقریر کو کچھ دیر کے لیے موخر کر دے۔ ہمارا ملک ، ملکِ پاکستا ن جس نام پر بنایا گیا تھا اس نام کی پاسدداری ہم کو کرنی ہو گی۔ کلمہ حق ہمیں خود اپنے عمل سے بیان کرنا ہو گا۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر بے پردگی کو روکنا ہو گا ۔ حجت بازی اور حیلے بہانے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
کیونکہ یہ دنیا چند دن کی عارضی دنیا ہے ۔۔۔ آخر ہم کو جانا قبر میں ہے جہاں صرف اور صرف عملی مسلمان ہی کامیاب ہو گا۔ حجت و حیلے بہانے والے مسلمانوں کو دیکھتے ہوئے ہی تو ہر کوئی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے در پر لگا رہتا ہے، ہر کوئی یہ ہی سوچتا ہے کہ میرے کرنے سے کیا ہو گا۔ مگریہ بھی مسلم حقیقت ہے کہ ایک ایک قطرہ مل کر سمند ر بنتا ہے، اور کوشش کریں کہ ہم ہی وہ پہلا قطرہ بنیں اور اس عورت کی مثال کو زندہ کرے جو حضرت یوسف علیہ السلام کو خریدنے کے لیے بانڑھ کی رسی لے کر آئی تھی کہ کم از کم میرا نام تو آئے گا خریداروں میں۔۔۔ آئو ہم زندہ قوم بن کر زندہ جاوید ہونے کا ثبوت دیں۔
تحریر: محمد جواد خان
aoaezindgi@gmail.com