تحریر : سجاد گل
یہ کہانی ہے ایک ایس ایچ او کی، نام غلام اصغر چانڈیا، ایس ایچ او تھانہ نیو ٹائون راولپنڈی، موصوف سے ایک جرم سرزد ہوا ہے، جرم یہ ہے، موٹرو ہیکل آرڈیننس 1965ء کے تحت مسلم لیگ ن کے کچھ نوجوان ون ویلینگ کرتے پکڑ لئے، ون ویلنگ کرنے والے ہیروز کو چھڑانے آتے ہیں ایک ولن، جنکا نام ہے حنیف عباسی، جی جی وہی صاحب جو قومی اسمبلی کے سابقہ رکن ہیں اور چیئرمین میٹرو بس پروجیکٹ راولپنڈی ہیں، تھانہ پہنچ کر موصوف نے غلام اصغر چانڈیا کو کہا کہ ان لڑکوں کو چھوڑ دیا جائے، غلام اصغر چانڈیا نے قانونی جواب دیا اور کہا جناب آپ ہمیں اپنا کام کرنے دیں قانون کے مطابق جو کاروائی ہونی ہے وہ ہو گی، یہ جواب سن کر حنیف عباسی غصے سے آگ بگولہ ہو گئے۔
غلام اصغر چانڈیا کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو میری بات نہ ماننے والے میری بات تو فوج بھی رد نہیں کرتی، اگر چانڈیا صاحب کی جگہ میں ہوتا تو کہتا ایک منٹ رکیں عباسی صاحب یہ جو آرمی والی بَڑ آپ نے اپنی بغل سے نکال کے پھینکی ہے اسکی حقیقت میں راحیل شریف سے پوچھتا ہوں، پھر کیا ہوتا۔۔۔چل استاد چل، ڈبل اے”اگلا سٹاپ۔ اس پر بس نہیں ہوئی اس کے بعد ن لیگ کی غنڈہ ٹیم نے تھانے پر حملہ کر کے سرکاری سازو سامان کی توڑپھوڑ کی۔
حنیف عباسی نے غلام اصغر چانڈیا کو معطل کرانے کی دھمکی دی، اتنے میں کسی نیک روح شخص نے میڈیاکو اطلاع کر دی ، پھر ولن اور ہیرو دم دبا کر ایسے بھاگے ،جیسے ہم بچپن میں اپنے اساتذہ کو دیکھ کر جاتے تھے، اور پھر۔۔۔” چل استاد چل، ڈبل اے”اگلا سٹاپ۔ سوال یہ ہے۔۔۔ کیاجب کوئی ایماندار پولیس آفیسر اپنے فرائض سرانجام دینے پر ڈٹ جائے تو اس ملک میں اسے اس دلیری کا صلہ یوں ہی دیا جاتا ہے۔
کیا جب مجرم کسی صاحبِ منصب شخص کی جان پہچان والا ہو گا تو وہ قانون و انصاف کے تقاضوں سے بالا تر سمجھا جائے گا؟ جواب یہ ہے۔۔۔جی بالکل ایسا ہی ہے ،اس ملک میں عدل و انصاف کے معیار الگ الگ ہیں ،اور اکثروبیشتر جرائم کے پیچھے یہی بڑے بڑے ہاتھ ہوتے ہیں،اورجب کوئی ایماندار پولیس آفیسر کسی مجرم کو گرفتار کرتا ہے تو کسی، عباسی،رانا،خان، خٹک ،چودھری، شیخ،شریف،جیلانی یا گیلانی کی کال آجاتی ہے، اور پھر۔۔۔چل استاد چل ،ڈبل اے اس ملک کا قانون مرغی اور انڈہ چوروں کے لئے تو حرکت میں آتا ہے ،مگر اس وقت یہ قانون اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے جب قومی اسمبلی کا سابقہ رکن تھانے میں توڑ پھوڑ کرتا ہے،اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔
قانون کے رکھوالے کو یوں مخاطب کرتا ہے کہ۔۔۔ائوے توکون ہوتا ہے میری بات نہ ماننے والا میری بات تو فوج بھی نہیں ٹالتی،۔۔۔چل استادچل ڈبل اے۔۔۔اگلا سٹاپ۔ اگر امریکہ، برطانیہ، چین، جاپان، جرمنی، فرانس یا کنیڈا میں کوئی حکمران یہ حرکت کرتا تو اسے نہ صرف تمام اختیارات سے مرحوم کر دیا جاتا بلکہ قانون کے مطابق اسے سزا سے بھی سامنا کرنا پڑتا،مگر یہاں تو اسمبلیوں کی رکنیت ہی اس لئے حاصل کی جاتی ہے کہ اتنا اثر ورسوخ ہو کہ مجرموں کو تحفظ دینا پڑے تو کوئی مسئلہ نہ ہو،اور ہمارے سروں پر سوار اکثر حکمران خود مجرم ہیں۔
جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مجرم بیٹھے ہوں تو آپ خود بتائیں ایسے ملک میں کوئی ایمان دار شخص کیسے اپنے فرائضِ منصبی احسن طریقے سے نبھا سکتا ہے،یہ چور ڈکیت ،یہ اسمگلر،یہ اغواہ کار، پانامہ اور منی لانڈرنگ کی دلدل میں پھنسے حکمران کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ اس ملک میں مجرم کو اس کے جرم کے عین مطابق سزا دی جائے اور مظلوم تک عدل و انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے،یہی تو وجہ ہے یہاں گٹر کے ڈھکن چوری کرنے والے تو جیلوں میں پڑے ہیں مگر ملک و قوم کی کھربوں کی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کرنے والے ملک کے حکمران بنے عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں، کیوں کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب چلتا ہے، کیوں کہ، چل استاد چل ،ڈبل اے۔اگلا سٹاپ۔ ” الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ”یاپھر” اک چوری تے دوجا سینہ زوری”اب ایس ایچ او اصغر چانڈیا کو اس بہادری کا انعام یہ دیا جا رہا ہے کہ انہیں اس دلیرانہ قدم کی پاداش میں مختلف مصائب کا سامنا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ چانڈیا صاحب اپنی اس دلیری پر ڈٹ گئے ہیں ،اور انہیں اپنے کئے پر کوئی ملال وپچھتاوا نہیں،یہاں اگر کوئی میری طرح کا مسکین پولیس والا ہوتا تو وہ حنیف عباسی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہتا ،جناب اعلیٰ میں نے آپ کی پارٹی کے نوجوان گرفتار کر کے ایک سنگین غلطی کا ارتکا ب کیا ہے،آج بندہِ عاجز کو چھوڑ دیں آئندہ وعدہ رہا اس قسم کی غلطی کبھی نہیں ہو گی،اس کے بعد وہ بھی نوکری کے دن اسی طرح چھپ چھپا کر پورے کرتا جیسے بہت سارے پولیس والے کرتے پھر رہے ہیں،جن کا موقف ہوتا ہے جناب شرم پردے سے نوکری کے دن پورے کرو ،اورباقی ”اللہ اللہ خیر صلہ” چل استاد چل ،ڈبل اے…آگے کوئی سٹاپ نہیں۔
تحریر : سجاد گل
0341-3555566