ہر ملک میں منتخب حکومتوں کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اہم قومی مسائل کا جائزہ لے کر انھیں حل کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین کرتی ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتی ہیں جو قومی مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 69 سالوں میں کسی منتخب یا غیر منتخب حکومت نے نہ اہم قومی مسائل کا تعین کیا نہ ان کے حل کی طرف توجہ دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی اور اقتصادی زندگی میں ایک جمود طاری ہے۔ہماری سیاسی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں دو بنیادی مسائل حائل ہیں، ان دو مسائل کو حل کیے بغیر سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں پیش رفت ممکن نہیں یہ دو مسائل ہیں زرعی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات۔ اس حوالے سے اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ ایوب خان اور بھٹو نے جو زرعی اصلاحات کیں اسے ہم اگر پروپیگنڈا اصلاحات کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات کا مقصد سیاسی رہنماؤں کو بلیک میل کرنا تھا کیونکہ ایوب خان کو یہ خوف لاحق تھا کہ سیاست دان اس کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں ابتدا ہی سے جاگیرداروں کا غلبہ رہا ہے، ایوب خان اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھا۔ سو اس نے جاگیرداروں کو بلیک میل کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کا ناٹک رچایا اور جاگیرداروں سے زمین لے لیں۔ ایوب خان کے اس اقدام سے جاگیردار بہت پریشان ہوگئے اور ایوب خان کو یقین دلایا کہ وہ اس کے لیے خطرہ نہیں بنیںگے۔ اس حوالے سے عملی حمایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھوں نے مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑا کنونشن لیگ ایوب خان کی خدمت میں پیش کردیا، یوں اس خدمت کے عوض ایوب خان نے زرعی اصلاحات کے تحت جاگیرداروں سے لی ہوئی زمین انھیں واپس کردیں اورکنونشن لیگ کے ذریعے ایوب خان کے اقتدار کو مستحکم کیا۔ اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ایوب خان دس سال تک ملک پر حکومت کرنے میں کامیاب رہا۔
بھٹو کی زرعی اصلاحات بھی کاغذی زرعی اصلاحات تھیں اور پیپلزپارٹی سے ترقی پسند رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد چونکہ فیڈرل طاقتور ہوگیا تھا، سو اس نے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو کاغذی زرعی اصلاحات بناکر رکھ دیا۔ آج زرعی اور انتخابی اصلاحات پر ایک بار پھر قلم اٹھانے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ عوامی ورکرز پارٹی کی حالیہ کانگریس میں پارٹی کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں اگر بائیں بازو کی کوئی نمایندہ جماعت ہے تو وہ عوامی ورکرز پارٹی ہے۔ پچھلے ہفتے ہماری ملاقات عوامی ورکرز پارٹی کے سینئر رہنما اختر حسین ایڈووکیٹ سے ہوئی اوراس طویل ملاقات میں قومی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، ہمارا موقف یہ تھا کہ پارٹی کی کامیاب کانگریس قابل مبارکباد ہے لیکن جب تک پارٹی کو عوام سے بڑے پیمانے پر جوڑا نہیں جائے گا کامیاب کانگریس کا مقصد پورا نہیں ہوگا اور پارٹی کو عوام سے جوڑنے کے لیے وہ راستہ اختیار نہ کیا جائے جو ملک کی سیاسی جماعتیں نان ایشوز پر عوام کو متحرک کرکے وقت ضایع کررہی ہیں۔
ہمارے ملک کی سیاست پر اب بھی بڑی حد تک وڈیرہ شاہی کا قبضہ ہے اوراس وڈیرہ شاہی ذہنیت کے پھیلاؤ کا عالم یہ ہے کہ ملک چند خاندانوں کی میراث بن گیا ہے جب تک زرعی اصلاحات کرکے سیاست سے باقی رہ جانے والی وڈیرہ شاہی کو بے دخل نہیں کیا جاتا ملک چند خاندانوں کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے برادرم اختر حسین نے اکبر زیدی کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ اکبر زیدی ماہر معاشیات نے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اب جاگیرداری نہیں رہی بلکہ اب پاکستانی معیشت سرمایہ دارانہ ہوگئی ہے۔
اکبر زیدی ایک ماہر معیاشیات ہیں لیکن وہ اپنے تجزیے میں اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور سندھ میں آج بھی جاگیردار اور بڑے زمیندار موجود ہیں اور لاکھوں ایکڑ زمین ان کے قبضے میں ہے اختر حسین نے اس حوالے سے نشان دہی کرتے ہوئے بتایاکہ سندھ کے ایک وڈیرے کے پاس آج بھی ایک لاکھ بیس ہزار ایکڑ زمین موجود ہے ۔اس حوالے سے بھائی اختر حسین نے نشان دہی کی کہ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عابد حسین منٹو نے پانچ سال پہلے زرعی اصلاحات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن ڈال رکھی ہے لیکن اس اہم قومی مسئلے پر تیز ترین شنوائی کے بجائے: ’’ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ کا رویہ اپنایا جارہا ہے جب تک ملک میں ایک جامع زرعی اصلاحات نہیں ہوتیں ملک چند خاندانوں کی گرفت سے آزاد ہوسکتا ہے نہ سیاست اور اقتدار پر سے وڈیرہ شاہی کا تسلط ختم ہوسکتا ہے ۔
جس کے ہماری سماجی اور اقتصادی زندگی پر بھی مہلک اثرات پڑ رہے ہیں اور عملاً ہماری جمہوریت وڈیرہ شاہی جمہوریت بن گئی ہے۔ زرعی اصلاحات کے بعد ہمارا دوسرا بڑا قومی مسئلہ انتخابی اصلاحات ہے چونکہ روز اول ہی سے ہمارے ملک پر اشرافیہ قابض ہے سو اس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اس انتخابی نظام کو رائج کیا ہے جس میں الیکشن میں وہی شخص حصہ لے سکتا ہے جو اربوں کا مالک ہو اور انتخابی مہم پر کروڑوں روپے صرف کرسکتا ہو۔
اس عوام دشمن انتخابی نظام کی وجہ سے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے مخلص با صلاحیت اور ایماندار لوگ اشرافیائی سیاست کے سمندر کے ساحل پر کیکڑوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں ہماری محترم الیکشن کمیشن انتخابی اصلاحات پر غور کررہا ہے اور اس حوالے سے جو نکات سامنے آئے ہیں وہ صرف خانہ پری کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک پورے انتخابی نظام کو بدل کر اسے سرمائے کی گرفت سے آزاد نہیں کرایاجاتا اور مڈل کلاس مزدوروں اور کسانوں کے اہل نمایندوں کو انتخابات میں شرکت کے مواقعے فراہم نہیں کیے جاتے اس وقت تک ہمارا انتخابی نظام اشرافیائی نظام ہی رہے گا اور اشرافیہ ہی سیاست اور اقتدار پر قابض رہے گی۔ عوامی ورکرز پارٹی کی نظریاتی ذمے داری ہے کہ وہ زرعی اور انتخابی اصلاحات کے واضح پروگرام کے ساتھ عوام میں جائے اور ان اہم قومی مسائل پر عوام کو متحرک کرے۔