تحریر : عقیل احمد خان لودھی
کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر دیکھا جائے تو یہاں سب سے زیادہ استحصال بھی زراعت سے وابستہ افراد کا ہی ہورہا ہے اور یہ استحصال حکومت اور حکومتی ادارے کاشتکاروں کسانوں اور زراعت سے منسلک دیگرافراد کا کر رہے ہیں۔گزشتہ 67 سالوں میں کسی بھی حکومت نے کسانوں کی حالت زار کو بہتر بنانے پر وہ توجہ نہیں دی جس کے وہ ہر لحاظ سے مستحق تھے ہر دور میں کسانوں کو جوگاٹھ ہی لگایا جاتا رہا ہے آج بھی موسموں کی سختیاں جھیل کر وقت بے وقت مشقت کرکے اولاد کی طرح فصلوں کو پال کر جوان کرنے والا اور ان فصلوں کو خلق خدا کیلئے اپنے ہی خرچہ پر منڈیوں تک لیجانے والا کسان اپنی محنت کا صحیح معاوضہ حاصل نہیں کرپارہا۔ ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی زراعت میں اپنا رزق تلاش کرتی ہے۔
دنیا بھر میں شعبہ زراعت نے بے پناہ ترقی کر لی ہے ترقی یافتہ ممالک نے کم خطہ ارضی کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود مستقبل میںغذائی قلت سے نمٹنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ کرلیا جدید زرعی آلات، ہائی برڈ بیج، فصلوں کیلئے سازگار ماحول، جڑی بوٹیوں اور فصلوں کی بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں سے نجات کیلئے اعلیٰ کوالٹی کی ادویات اور سپرے وغیرہ کا استعمال جبکہ پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس شعبہ پر مناسب توجہ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی کسانوں کی بڑی تعداد روایتی طریقہ کار پر ہی انحصار کرتی ہے۔غیرمعیاری بیج،جعلی زرعی ادویات ،صحیح طریقہ سے فصلوں کی کاشت نہ ہونے ، پانی اور بہتر رہنمائی کے بروقت میسر نہ آنے جیسے مسائل ہماری زراعت کی تنزلی کا باعث بن رہے ہیںپسماندہ علاقوں میںہمارے کسان ، کاشتکار بھائی آج بھی بیلوں کی مدد سے چلنے والے لکڑی کے ہل، مویشیوں کے گوبر کی کھادوغیرہ استعمال کرتے ہیں انہی وجوہات کی وجہ سے ہمارے ہاں فصلوں کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا۔ ٹریکڑ،ہارویسٹر، ٹیوب ویل، کھاد،سپریئر مشینیں، تصدیق شدہ معیاری بیج زراعت کے اہم اور لازمی جزو ہیں جبکہ ہمارے ہاں ان سہولتوں کا فقدان ہے۔
اجناس کی بروقت مناسب قیمت پر فروخت نہ ہونے اورکسانوں سے سستی اجناس خرید کر مہنگے داموں خریدنے ،بجلی کی لوڈشیڈنگ،مہنگے سودی قرضوں ،جعلی ادویات ،موسمی اثرات اور سیلاب جیسے معاملات کی وجہ سے کسان کو مشکلات درپیش ہیں۔جدیدزرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں ۔دیگرممالک نے زراعت کے میدان میں تحقیق کے بل بوتے پربے پناہ ترقی کی ہے اور ہمارے تحقیقاتی اداروںکی حالت یہ ہے کہ وہاں نقل سے کام لیا جاتا ہے یہاں تعینات لو گ زیادہ تر سفارشی اور صرف بڑی بڑی تنخواہیں حاصل کرنے تک محدود ہیں،زرعی بجٹ کا بڑا حصہ انتظامیہ کی فرضی بھاگ دوڑ پر صرف ہوجاتا ہے ۔ہمسایہ ملک انڈیا نے تحقیق کے نتیجہ میں زراعت میں کئی گنا ترقی کرلی ہے اعلیٰ نتائج کی حامل ادویات، ترقی دادہ بیج ، کھادوں اور زرعی آلات میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرواکے ، بجلی پانی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی سے کسان کو خوشحال کردیا ہے اور پاکستان سے فی ایکڑ کے مقابلہ میں دگنی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔پاکستانی ارباب اختیار کو بھی چاہیئے کہ مستقبل میں غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے گندم، چاول،سبزیوں، کپاس، گنا اور چارہ جیسی فصلوں پر ٹھوس تحقیق کر کے ان کی پیداوار میں سو فیصد اضافہ کو ممکن بنایا جائے۔
یہ بات حکمرانوں کو ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ ملک کے کسان کی حالت زار میں بہتری لائے بغیرہم زراعت میں خود کفیل نہیں ہوسکتے۔ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک نے زرعی نظام میں ترجیحاََ اصلاحات اور کسان دوست پالیسیاں لاگو کرکے ہی زراعت میں خود کفالت حاصل کی ہے وہ جانتے ہیںکہ زراعت کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی وخوشحالی کی راہ پر چلا جاسکتا ہے۔ہمارے ہاں اس وقت ایک اور بڑا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے وہ زرعی زمینوں کی مجبور کسانوں سے اونے پونے داموں خریداری اور پھر ان زمینوں کا ہاوسنگ سکیموں اور کمرشل پراپرٹیوں میں تبدیل کئے جانے کا معاملہ ہے یہاں حکومت کی کسانوں کو زرعی شعبہ میں بہترین معاونت فراہم نہ کرنے سے اس شبہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت میں موجود سرمایہ دارانہ ذہنوں نے کسان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اور فصلوں کا اچھا معاوضہ نہ دیکر منصوبہ بندی کے تحت معاشی کمزور کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے تا کہ کسان مجبور ہو کر اپنی زمینیں سرمایہ داروں کو فروخت کردیں جبکہ ہائوسنگ سکیموں کے ناجائز منافعوں اور غیرقانونی تعمیرات کے باوجود انہیں کہیں بھی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی بیوروکریسی انتظامیہ ان ہائوسنگ سکیموں کی پشت پناہی کرتی اور کھلے عام ان سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے وقت میں زراعت کے لئے ہمارے ہاں زمین دستیاب نہیں ہوگی جس سے ملکی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ڈویژن گوجرانوالہ زرعی لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے یہاں سے گندم آلواور دیگر فصلوں کے علاوہ بہترین چاول دنیا بھر میں بر آمد کیا جاتا ہے جبکہ یہاں آج بھی کسانوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں محکمہ زراعت کسانوں کی بھرپور رہنمائی کرنے میں ناکام ہے زیادہ بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اب حالیہ بارشوں سے بھی گندم کی ہزاروں ایکڑ پر فصل تباہ ہورہی ہے۔ گزشتہ روز کسان بورڈ کونسل وزیرآبادنے کھاد بجلی اور بیج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود اجناس کی قیمتیں کم ہونے اور دیگر مسائل پر حکومتی توجہ دلانے کیلئے ڈسکہ روڈ پر قائم شیخ نیاز غلہ منڈی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کسان بورڈ کے عہدیداروں شہباز احمد چیمہ،محمد منشاء چیمہ، ماسٹر محمد اسلم، نذر محمد چیمہ اور دیگر نے کسانوں کو درپیش مسائل بارے بتایاکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک میں زراعت پر حکومت کی طرف سے توجہ نہیں دی جارہی وطن عزیزمیں کسانوں کو فصلوں کی کاشت اور کٹائی پر بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے وزیرآباد اور گردنواح کے علاقوں میں ہزاروں ایکڑ گندم کی فصل تباہ ہوگئی ہے جو جانوروں کے چارہ کے قابل بھی نہیں رہی۔اجناس کی منڈیوں میں فراہمی پر بروقت ادائیگیاں نہ ہونے اور مہنگے قرضوں کی وجہ سے کسان معاشی مسائل میں دبتا چلا جارہا ہے تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے کوئی کسانوں کی مدد کیلئے نہیں آتا۔صدر کسان بورڈ شہباز احمد چیمہ ، شیخ عامر اور دیگر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ حالیہ بارشوں سے متاثر ہونے والے کسانوں کی مدد کرے ور ان کے ذمہ قرضوں کو معاف کرے ۔ زراعت پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آنے والا وقت بہت مشکل ہوگا، شعبہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کسانوں کو بلا سود قرضے، سستے بیج کھاد اور ادویات کی سہولتیں دیکر ملکی معیشت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے زرعی مشینری کی قیمتوں میں کمی کیساتھ انہیں سستے بیج ادویات اور سستی کھاد فراہم کی جائے جبکہ اجناس کا معاوضہ بھی بڑھایا جائے۔فصلوں کی بلامعاوضہ انشورنس اور سودی قرضوں کا خاتمہ کرکے زرعی شعبہ میں تحقیق ، کھادوں ادویات ، بیج اور بجلی کی قیمتوںپر سبسڈی دیکرزراعت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے کسان خوشحال ہوگاتو پاکستان خوشحال ہو گا۔
تحریر : عقیل احمد خان لودھی