لاہور: 17 سالہ سبیکا شیخ ڈھیروں خواب لے کر امریکا پہنچی تھی۔ طلبہ تبادلے کے ایک پروگرام کے تحت وہ امریکی ریاست ٹیکساس کے سینٹا فے ہائی سکول میں زیرتعلیم تھی۔ نو جون کو 10 ماہ پر مشتمل یہ پروگرام اختتام کو پہنچنا تھا لیکن اس سے قبل ہی سکول پر قیامت ٹوٹ پڑی۔
18مئی کو ٹیکساس فائرنگ کے ایک واقعے میں سبیکا سمیت دس افرادجان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فائرنگ کرنے والا ایک طالب علم تھا جو اسی سکول میں زیر تعلیم تھا ۔ فائرنگ کے اس واقعے پر دنیا بھر میں افسوس کا اظہار کیا گیا۔ ایک جواں سال پاکستانی کی موت پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر خاصا ردعمل دیکھنے میں آیا اور سبیکا شیخ کی مسکراتی ہوئی تصور چار سو گردش کرنے لگی۔
اہم سیاسی اور سماجی شخصیات نے بھی اظہار افسوس کیا۔ سبیکا جہاں رہتی تھیں وہاں کے گھر والوں نے بھی انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔ اس خاندان کے فرد مسٹر جیسن کا کہنا تھا کہ ’’سبیکا ہمارے پاس آتے ہی بے تکلف ہو گئی۔ میری ایک بیٹی ہمارے ساتھ رہتی ہے۔ وہ تو سبیکا کی گہری دوست بن گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ سبیکا کی شکل میں خدا نے ہمیں اپنا بہترین تحفہ بھجوایا تھا۔ ہم اس سے پیار کرنے لگے۔ وہ بھی ہمیں بہت چاہتی تھی۔جب رمضان شروع ہوا اور وہ روزے رکھنے لگی تو ہم نے اس کی بھرپور مدد کی۔ وجہ یہ تھی کہ ہم محبت کے انمول بندھن سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھ گئے تھے۔‘‘
سبیکا کے والد حوصلہ مند اور روشن خیال انسان ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی بیٹی کو حصول علم کے لیے بیرون ملک بھیجا بلکہ موت کے بعد یہ بھی کہا کہ ایسے واقعات سے خوف زدہ ہوئے بغیر دوسرے طلبہ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک ہونہار طالبہ کا یوں اس دنیا سے چلے جانا واقعی افسوسناک تھا۔ امریکا میں اس طرح کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں اور بظاہر حکومت انہیں روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔