وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ، وزیراعظم نے آئی جی سے واقعے کی مکمل رپورٹ طلب کرلی
خصوصی رپورٹ ..( اصغر علی مبارک سے )وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ، شکر گڑھ کنجر وڑمیں جلسے میں شرکت کے فائرنگ کی گئی گولیاں کندھے پر لگییں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر شکر گڑھ میں فائرنگ کرنے والے کی فوٹج سے شناخت کی گئی کنجر وڑ سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو نارووال منتقل کر دیا گیا اکیس سالہ ملزم عابد حسین گرفتار کرلیا گیا ڈاکٹروں کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی حالت خطرے سے باھر ھے تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیردا خلہ احسن اقبال پر نارووال کنجروڑ میں جلسے سے واپس جاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل احسن اقبال ملزم عابد نے فائرنگ کی جس سے ا یک گولی ان کے دائیں بازو پر لگی، انہیں طبی امداد کے لئے فوری طور پر ڈی ایچ کیو نارووال منتقل کیا گیا ۔
ڈاکٹروں کے مطابق وفاقی وزیرد اخلہ طبی امداد کے بعد مکمل ہوش میں ہیں ڈی پی او نارووال عمران کشور کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کرنے والے حملہ آور کو گرفتار کرلیا ہے، 21سالہ عابد حسین نے وزیر داخلہ پر 15 گز کے فاصلے سے نشانہ بنایا،ملزم کا تعلق نارووال کے گائوں میرم سے ہے ، حملے سے قبل ملزم عابد حسین نےوفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی تقریر فرنٹ لائن میں بیٹھ کر سنی ، ملزم عابد حسین سے 30بور کا پستول ملا ہے،1958 میں جنم لینے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اس وقت وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی ہیں۔احسن اقبال ممتاز تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور، یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (لاہور)، جارج ٹاؤن یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ان کا تعلق ایک سیاسی پس منظر رکھنے والے گھرانے سے ہے، اُن کی والدہ آپا نثار فاطمہ بھی پارلیمینٹیرین رہی ہیں اور قیامِ پاکستان سے قبل اُن کے نانا چوہدری عبدالرحمٰن خان بھی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔احسن اقبال نے 1988 میں اسلامی جمہوی اتحاد کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا جس کے بعد جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حصہ بنے۔انھوں نے این اے اس وقت 90 (جو 2013 میں 117 حلقہ) نارووال سے پہلی مرتبہ 1993 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جس کے بعد 1997، 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم انھیں ایک مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔احسن اقبال نے وفاقی حکومت میں اہم وزارتوں کے قلم دان سنبھالے اور کلیدی کردار ادا کیا۔انھوں نے بطورڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور چیئرمین پاکستان انجینئرنگ بورڈ خدمات انجام دیں۔وہ نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی آن انفارمیشن ٹیکنالوجی آئی کیو ایم پروڈکٹیوٹی کے بھی چیئرمین رہے۔احسن اقبال کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی انفارمیشن ٹیکنالوجی پالیسی کے خالق ہیں جو انھی کا شروع کیا گیا منصوبہ تھا۔انہوں نے سن دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک محمد علی جناح یونیورسٹی، اسلام آباد کی انتظامیہ میں بھی خدمات انجام دیں۔وہ ایک تھنک ٹینک ‘بیٹر پاکستان فاؤنڈیشن’ کے بھی سربراہ رہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی سے مکمل رپورٹ طلب کرلی ہے اور ساتھ ہی وزیر داخلہ لاہور منتقلی کےلئے اپنا ہیلی کاپٹر نارووال بھیج دیا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘الّلہ رب العزت احسن اقبال صاحب کو زندگی اور صحت عطا فرمائے، آمین، یہ ملک ہمارا ہے اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے والی قوتوں کا محاسبہ کرنا ہو گا’وزیراعظم نے آئی جی سے واقعے کی مکمل رپورٹ طلب کی ہے ، دوسری طرفپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ وفاقی وزیرداخلہ پرحملہ نہیں بلکہ یہ ریاست پرحملہ ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ احسن اقبال کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں اور حملے میں ملوث کردار کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔سابق صدر آصف زرداری اور پی پی پی رہنما نیئربخاری نے بھی احسن اقبال کی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق سینیڑ شاہی سید نے اپنے بیان میں وفاقی وزیرداخلہ پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال پر حملہ سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے، حملے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔اکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں احسن اقبال پر حملے کی مذمت کی۔،وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ یہ حملہ وفاقی وزیر داخلہ پر نہیں ریاست پر ہے اس میں ملوث کرداروں کو جلد از کیفرکردار تک پہنچایا جائے ۔