لاہور: (امتیاز گل) پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے ذاتی یا پارٹی مفادات کیلئے جاری فضول جھگڑوں کی وجہ کراچی میں ہونیوالے ایک اہم انتباہی ایونٹ خاص توجہ نہ حاصل کر سکا، یہ 14 جون کی پریس کانفرنس تھی جس کا اہتمام حکومت سندھ نے کیا، اس میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے اور اقوام متحدہ کے حکام شریک ہوئے، پریس کانفرنس کا مقصد میڈیا کو لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلنے کی وجوہات سے متعلق اپ ڈیٹ کرنا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کی قیادت میں مختلف تنظیموں کی پارٹنرشپ کیساتھ ہونیوالی تحقیقات کے ابتدائی نتائج کے مطابق ضلع لاڑکانہ کے 798 افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی، ان میں 82 فیصد کی عمریں 15 سال سے کم جبکہ اکثریت پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 کے دوران 20 ہزار ایچ آئی وی کے نئے متاثرین کیساتھ پاکستان ایشیا پیسفک ریجن کا دوسرا ملک ہے جہاں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، زیادہ تر کمزور اور پسماندہ طبقے اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یوایس ایڈز نے اس بیماری سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات پر زور دیا تاکہ ایڈز کے خاتمے کی کوشش میں پاکستان پیچھے نہ رہ جائے۔ عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے بڑے پیمانے پر ایچ آئی وی کے پھیلنے کی وجوہات معلوم کرنے کیلئے لاڑکانہ میں 15 دن گزارے۔ جامع تحقیقات کے بعد ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ ایچ آئی وی کے پھیلنے کی بڑی وجہ شہر میں شعبہ طب سے وابستہ افراد کی سنگین کوتاہیاں ہیں۔ تحقیقا ت کے مطابق طبی آلات کو جراثیم سے پاک کرنے کے نامناسب اقدمات، سرنجوں اور آئی وی ڈرپس کا بار بار استعمال ایچ آئی وی کے پھیلنے کے بڑی وجوہات ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی قیادت میں ہونیوالی تحقیق میں سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام، آغا خان یونیورسٹی ، فیلڈ ایپیڈیمولوجی اینڈ لیبارٹری ٹریننگ پروگرام ، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کراچی ، مائیکروبیالوجی سوسائٹی برائے متعدی امراض کے علاوہ یو ایس ایڈز ، یونیسف اور یواین ایف پی اے نے مشترکہ طور پر شرکت کی۔یو ایس ایڈز کے علاقائی ڈائریکٹر ایمون مرفی نے کہا کہ ایچ آئی وی کے پھیلنے کی بنیادی وجوہات سے ہنگامی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے ، وگرنہ ایچ آئی وی پھیل کر ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے ۔ اس بیان کا موازنہ اپنے سرکردہ سیاستدانوں کے معمول کے بیانات سے کریں تو بندہ اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ووٹروں کو سیڑھی بنا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے رہنما کبھی ان کے بارے میں سوچنے کیلئے وقت نکال پائیں گے ؟ نجی طیاروں، مہنگی لگژری گاڑیوں میں سفر اور جمہوریت کیلئے جدوجہد سے متعلق پرجوش بیانات جاری کرنے والے بلاول، مریم، حمزہ اور دیگر سیاستدانوں کو کبھی احساس ہوا ہے کہ عوام کی زبوں حالی سے روگردانی اور میر ٹ مسلسل نظر انداز کرنے کی پبلک سروسز کا شعبہ کیا قیمت ادا کر رہا ہے؟۔ عالمی ادارہ صحت کی قیادت میں ہونیوالی تحقیقات کے نتائج محکمہ صحت سندھ سمیت پاکستان بھر کے سرکاری نظام پر ایک فرد جرم ہے، جس کیلئے مختص قیمتی فنڈز کا بڑا حصہ اس حلقے کی جیب میں چلا جاتا ہے جوکہ سپلائی چین کا حصہ ہے ، ان میں سپلائر کے علاوہ محکمہ صحت کے افسر اور وزیر تک شامل ہیں۔ اور یہ غلیظ امیر کبیر رہنما ؟ اس چھان بین کی ضرورت نہیں کہ ان میں کتنے بہت امیر ہوئے ۔ ان کی اکثریت کو جمہوریت کی فکر ہے ، جمہوریت کی بنیاد یعنی ووٹروں کی نہیں۔ اسلئے ووٹروں کی دیکھ بھال کرنیوالے عوامی خدمت کے اداروں میں سنگین حد تک ضروری سازو سامان کی کمی حیران کن نہیں۔