تحریر : رانا اعجاز حسین
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایڈز سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کا عالمی دن یکم دسمبر کو منایا جاتا ہے، اس دن کے منانے کا مقصد عوام الناس کو اس مہلک اور خطرناک مرض سے احتیاط کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔ قدرت نے انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر و مضبوط دفاعی نظام سے نوازا ہے جس کو ہم مدافعتی نظام بھی کہتے ہیں، اسی کے طفیل جسم میں انسانی قوت مدافعت کار گزار ہوتی ہے۔
اس مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث انسان مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایڈز کا مرض ایک وائرس virus کے ذریعے پھیلتا ہے جو ڈائریکٹ انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس خطرناک وائرس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس جراثیم کو ایچ آئی وی (HIV) کہتے ہیں، اس کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو ناکارہ بنانے والا وائرس بھی کہا جاتا ہیں۔ ایڈز کا یہ وائرس زیادہ تر خون اور جنسی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ جسم کی دوسری رطوبتوں یعنی تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ میں بھی پایا جاسکتا ہے۔ مگر تھوک، آنسو، پیشاب اور پسینہ بیماری پھیلانے کا باعث نہیں بنتے بلکہ یہ بیماری صرف خون اور جنسی رطوبتوں کے ذریعے ہی پھیلتی ہے۔
یہ وائرس کسی بھی متاثرہ شخص سے اس کے جنسی ساتھی میں داخل ہو سکتا ہے یعنی مرد سے عورت، عورت سے مرد، اور متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں جا سکتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ جنسی پھیلاؤ اور بے راہ روی کا شکار ممالک اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں۔خون کے اجزاء کے ذریعے ایڈز کی بیماری درج ذیل صورتوں میں پھیلتی ہے۔ جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ خون یا خون کے اجزاء کو کسی دوسرے مریض میں منتقل کیا جائے۔ جب ایڈز کے وائرس سے متاثرہ سرنج اور سوئیاں دوبارہ استعمال کی جائیں۔وائرس سے متاثرہ اوزار جلد میں چبھنے یا پیوست ہونے سے مثلا کان، ناک چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور جراحی کے دوران استعمال ہونے والے آلات استعمال کئے جائیں۔ ایڈز کا وائرس متاثرہ ماں کے بچے میں حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد منتقل ہو سکتا ہے۔
ایڈر کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کا وائرس انسانی جسم میں کئی مہینوں یا برسوں تک رہ سکتا ہے۔ کسی شحض کے ایڈز کے جراثیم کی اینٹی باڈیز (Antibodies) اس سے متاثر ہونے کے چھ ہفتے یا اس سے زیادہ عرصہ میں بنتی ہیں۔ جسم میں ایڈز کے جراثیم کی موجودگی معلوم کرنے کے لیے خون میں اینٹی باڈیز کی موجودگی کو ٹسٹ کیا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ اینٹی باڈیز کسی کو بھی یہ بیماری پیدا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ جس کسی میں بھی ایڈز کا یہ وائرس داخل ہو جاتا ہے وہ اس کو دوسرے میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ صلاحیت بیماری کے شروع میں یا بیماری کے آخر میں بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس بیماری کی ابتدائی علامات فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایڈز سے متاثرہ مریض کی بڑی علامات میں چند یہ ہیں کہ مختصر عرصہ میں جسم کا وزن دس فیصد سے زیادہ کم ہو جاتا ہے، ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک اسہال رہ سکتا ہے، بخار ایک مہینے سے زیادہ عرصہ تک رہ سکتا ہے ، ان کے علاوہ بھی دیگر نشانیاں ہیں لہٰذا مستند ڈاکٹر کے پاس جا کر مکمل ایڈز کے ٹیسٹ کروانے چاہیے۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک انمول نعمت ہے، ہمیں اپنی زندگی سے پیار کرنا چاہئے۔ ایڈز جیسے مہلک مرض سے بچنے کے لیے ہمیشہ اپنے جیون ساتھی تک محدود رہنا چاہئے، خود کو ہمیشہ جنسی بے راہروی سے بچانا چاہئے، اگر ٹیکہ لگوانا ضروری ہو تو ہمیشہ غیر استعمال شدہ نئی سرنج کے استعمال پر اصرار کریں، خون کا انتقال تب کروائیں جب اس کی اشد ضرورت ہو، اگر زندگی بچانے کے لیے خون کا انتقال ضروری ہو تو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ انتقال کیا جانے والا خون ایڈز اور یرقان وغیرہ کے وائرسز سے مکمل طور پر پاک ہے،ناک کان چھدواتے ہوئے ہمیشہ گرم پانی سے دھلے اوزار استعمال کئے جائیں ، جبکہ شیو کرواتے وقت نئے بلیڈ کے استعمال پر زور دیں۔
پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے بارے میں آگاہی کے لیے ایک عرصے سے مہم چلائی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ایڈز کی روک تھام کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے پروگرام مینیجرکے مطابق ملک بھر میں ایڈز سے متاثر مریضوں کی اصل تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد نو ہزار سے زائد ہے۔ ایڈز کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لئے سرگرم چند این جی اوز کی مشترکہ تنظیم ، پاکستان ایڈز کنٹرول فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹو کا کہنا ہے کہ ”ملک میں ہمارے سامنے جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ،ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنا ٹیسٹ کروانے سے گھبراتے ہیں۔ وجہ یہ کہ کہ اگر ایچ آئی وی کسی کو لاحق ہوتا ہے اور ٹیسٹ میں یہ مرض ثابت ہو جاتا ہے تو ان کے ساتھ ملک میں ایک بدنامی جڑ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی جب کم تعداد سامنے آتی ہے تو یہ خیال کیا جانے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے جبکہ حقیقت میں یہ ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اسلامی طریقہ سے ختنے والے مردوں میں اس بیماری کے انفیکشن کا خطرہ بہت حد تک کم ہوجاتا ہے ۔ اس مہلک مرض کا سستااور موثر علاج یہی ہے کہ اس مرض سے ہر ممکن احتیاط برتی جائے۔ اور مرد کے جنسی تعلقات صرف بیوی تک اور عورت کے جنسی تعلقات صرف شوہر تک محدود ہوں اور بے راہ روی کی زندگی سے لازمی احتیاط کی جائے۔ یہ بھی واضع رہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے یہ مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں ان سے نفرت کی بجائے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اطاعت کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے اور مہلک بیماریوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:0300-9230033