یہ دسمبر 2003ء کا واقعہ ہے۔ کراچی کے علاقے ملیر کی گلشنِ اکبر کالونی کے ایک چھوٹے سے مکان سے لاشوں کے سڑنے کی بو آ رہی تھی۔ محلے داروں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے آکر دروازہ توڑا، اندر جا کر پتا چلا کہ بوڑھے میاں بیوی کی لاشیں پڑی ہیں، جو تقریباً 15 دن پرانی ہیں۔ پتا چلا کہ یہ لاشیں پروفیسر غازی خان جاکھرانی اور ان کی اہلیہ کی ہیں۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ غازی خان جاکھرانی گورنمنٹ کالج جامعہ ملیہ، ملیر کے ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 70 سال اور ان کی اہلیہ کی عمر 65 سال تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ پروفیسر صاحب انتقال سے دس سال پہلے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان دس سالوں میں انہوں نے اپنے تئیں بے انتہا کوششیں کیں لیکن نہ تو انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات ملے اور نہ ہی ان کی پنشن جاری ہو سکی۔ انہوں نے دفتروں کے بہت چکر کاٹے لیکن بابوئوں کے ’’قانونی‘‘ اعتراضات کے باعث ان کی پنشن کی فائل مکمل نہ ہو سکی۔ پروفیسر غازی خان نے گزر بسر کے لئے محلے میں ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ ان کی صحت جواب دے گئی اور بیماریوں نے گھیر لیا۔ ان کے پاس اپنے گزر بسر اور علاج کے لئے کچھ نہیں تھا لہٰذا تحقیقات کرنے والوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان حالات میں پروفیسر غازی خان جاکھرانی اور ان کی اہلیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنی زندگی ختم کر دیں۔ اس درد ناک واقعہ نے پوری پاکستانی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا تھا۔
آج بھی اس واقعہ پر دل مغموم ہوتا اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اگر پروفیسر صاحب کے واجبات مل جاتے اور انہیں پنشن جاری ہو جاتی تو ان کی زندگی کا انجام ایسا نہ ہوتا۔ اس واقعہ کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے بوڑھے پنشنرز کے مصائب اور مشکلات کی جانب توجہ مبذول کی۔ پتا چلا کہ مرکز اور صوبوں میں اکائونٹنٹ جنرل (اے جی) کے دفتر اور ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفیسرز کے دفاتر سمیت مختلف سرکاری دفاتر میں بوڑھے پنشنرز دھکے کھا رہے ہیں اور ان کی کوئی سننے والا نہیں۔ ان سے رشوت بھی لی جاتی ہے لیکن سالوں تک ان کی فائلیں مکمل نہیں ہوتیں۔ اے جی سندھ کے دفتر میں گزشتہ پانچ سال سے روزانہ آنے والے ایک بوڑھے ریٹائرڈ شخص کی کہانی بھی اخبارات میں شائع ہوئی جس کا تعلق سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تھا۔ وہ دفتر کے باہر بھیک مانگ کر گزارا کرتا اور رات کو فٹ پاتھ پر سو جاتا تھا۔ پروفیسر غازی خان کی مظلومانہ موت کی وجہ سے لوگوں نے اس پر بھی توجہ دی اور شاید اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کو واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونے اور پنشن جاری نہ ہونے کی وجہ سے کئی المناک واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔
ان معلوم اور نامعلوم المناک قصوں کو میں نے ایک واردات کی طرح اس وقت اپنے وجود پر ایک بار پھر محسوس کیا، جب چند روز قبل مجھے اے جی سندھ غفران میمن صاحب کی طرف سے سیمینار کا ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ یہ سیمینار ریٹائرڈ ملازمین اور پنشنرز کی مشکلات اور مصائب کے خاتمے کے حوالے سے تھا۔ میں عمر کے اس حصے میں ہوں، جب میں اس معاملے پر زیادہ حساس ہو چکا ہوں۔ میں نے غفران میمن صاحب کو فون کیا تو انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی تاکہ مجھے وہ اس اسکیم سے آگاہ کر سکیں، جو ریٹائرڈ ملازمین کو فوری طور پر واجبات کی ادائیگی اور پنشن کے اجراء کے لئے وضع کی گئی ہے۔ غفران میمن گریڈ21 کے سینئر افسر ہیں۔ اکائونٹس اور مینجمنٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بہت ہی حساس اور ہمدرد شخصیت کے حامل ہیں۔ اس اسکیم کے بارے میں بریفنگ دینے کے لئے انہوں نے دیگر سینئر افسروں کو بھی بلا لیا تھا۔ ان میں ڈاکٹر غلام رسول شاہ صاحب بھی شامل تھے، جو سندھ میں وفاقی ملازمین کے امور پاکستان ریوینیو کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ یہ اسکیم وہ اپنے یہاں بھی رائج کرنے والے ہیں۔ یہ اسکیم کس طرح کام کرے گی،
ملاقات میں یہ بتایا گیا کہ جون 2019ء میں اسکیم مکمل طور پر فعال ہو جائے گی۔ ریٹائرڈ ملازمین کو صرف ایک بار اے جی سندھ یا اس کے ضلعی دفاتر آنا پڑے گا اور وہ بھی صرف آدھ پون گھنٹے کے لئے۔ اس دوران کمپیوٹر پر ریٹائرڈ ملازمین کے انگوٹھوں کے نشانات محفوظ کئے جائیں گے اور ان کے بینک اکائونٹ کھولے جائیں گے۔ چند دنوں میں ان کے بینک میں واجبات کی رقم جمع ہو جائے گی اور ان کے اکائونٹس میں ماہانہ پنشن آنے لگے گی۔ میں اگرچہ فنی اور دیگر دفتری معاملات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ پاکستان خصوصاً سندھ کے ان بزرگ شہریوں کو پروفیسر غازی خان جاکھرانی جیسے مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اگر سسٹم میں کوئی خامیاں سامنے آئیں تو انہیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم کر دیا جائے گا۔ اس نئی اسکیم یا سسٹم کو دیکھ کر مجھے جو خوشی محسوس ہوئی، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ میں اس اسکیم کی کامیابی کے لئےدعاگو ہوں۔ مظلوم پروفیسر جاکھرانی اور ان کی اہلیہ کی روحیں بھی انہیں دعائیں دیں گی۔امریکہ اور یورپ سمیت دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں 60سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا کل آبادی کے حوالے سے تناسب ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ افراد کے سماجی تحفظ اور فلاح و بہبود پر سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح اپنے لوگوں پر خرچ کرنا شروع کر دیں تو ہمارے بجٹس میں دیگر مدات پر خرچ کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 2.6ملین پنشنرز ہیں۔ جن میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے پنشنرز بھی شامل ہیں۔ صرف سندھ میں صوبائی حکومت کے ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد 2لاکھ 40ہزار ہے۔ ان میں مسلح افواج کے 1.3ملین ریٹائرڈ ملازمین، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ریٹائرڈ ملازمین، پوسٹل اکائونٹس، کے ڈی اے، کے ایم سی، ملٹری اکائنٹس سمیت دیگر اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین شامل نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ 60سال کے زائد عمر کے دیگر بزرگ شہری بھی ہیں، جو سرکاری ملازمت میں نہیں رہے۔ اگر ان کی پنشن اور فلاح و بہبود پر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اخراجات کئے جائیں تو 2050ء میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے 65فیصد بجٹ اسی مد میں خرچ ہوں گے۔ باقی شعبوں بشمول دفاع اور ترقی کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا۔ ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ابھی سے حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ پنجاب اور سندھ حکومت نے پنشن فنڈ قائم کر دیئے ہیں تاکہ ان فنڈز کی رقم کی سرمایہ کاری سے پنشن کے بڑھتے ہوئے بجٹ کو پورا کیا جا سکے۔ اس فنڈ میں ہر سال اضافہ ہونا چاہئے تاکہ حکومتوں کے بجٹ پر بوجھ کم ہوتا رہے۔ بزرگ شہری ہم پر بوجھ نہیں بلکہ ہمارا اثاثہ ہیں۔ ان کے تجربات اور تدبر سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ امیر مسلم ہانی اگر ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ کارگر کے طور پر کام کر رہے ہیں تو باقی بزرگ شہری بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اپنے بزرگ شہریوں کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے اور ان سے زیادہ کام لینے والی قومیں ہی دنیا میں ترقی یافتہ ہیں۔