تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
پاکستان سمیت دنیا بھر میں فضائی ٹریفک کنٹرول کرنے والے یعنی ”ائیر ٹریفک کنٹرول کرنے والے ” ”ائیر ٹریفک کنٹرولر” کا عالمی دن 20 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ ان کو ہم فضائی ناخدا بھی کہ سکتے ہیں ۔ اِس دن کے منانے کا مقصد فضائی سفر کے دوران ائیرٹریفک کنٹرولر کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر ائیرٹریفک کنٹرولر کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔طیاروں کو اڑانے والوں کو عام طور پر پائلٹ یا ہوا باز کہا جاتا ہے ۔
لیکن جو لوگ فضا میں ان طیاروں کے سفر کو کنٹرول کرتے ہیں ، جہاں سے جہاز نے اڑنا ہوتا ہے (ہوائی اڈے) سے جہازوں کی اڑان کو (ٹیک آف) محفوظ بنانے والے اور بہ حفاظت اترنے (لینڈنگ) کی رہنمائی کرنے والے جو اس سارے عمل کے ذمہ دار ہوتے ہیں، وہ طیارے میں نہیں ہوتے بلکہ جہاز سے بہت دور کسی کمرے یا مینار (ٹاور ) میں بیٹھ کر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ان لوگوں کو ایئر ٹریفک کنٹرولر کہا جاتا ہے ۔
فضا ء میں ٹریفک کو کنٹرول کرنا ایک انتہائی نازک ،خطرناک،کام ہے، ان فضائی ناخداں کو خراج تحسین پیش کرنا اس دن کا ایک اہم مقصد ہے ۔ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ذمہ داریوں میںفضائی حدود میں پرواز کرنے والے طیاروں کو ایک دوسرے سے محفوظ فاصلوں پر رکھنا ۔ موسم کی کیفیت یعنی اس کے مطابق جہاز کو اران کی اجازت دینا ،طیارے کی سمت اور راستے کا تعین کرنا وغیرہ ہیں ۔ رات کے اوقات یا خراب موسم میں جب حدِ نظر بہت کم ہوجاتی ہے۔ ، ایئر ٹریفک کنٹرولر کی ذمہ داریوں مین بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے ) ایئرپورٹ کا نظم و نسق سنبھالتا ہے اس کے علاوہ دوسرا ادارہ پاک فضائیہ ہے ۔ ی ۔ ایئر ٹریفک کنٹرولرسول ایوی ایشن اتھارٹی کے ملازم ہوتے ہیں اور ان کا چناؤ اور فنی تربیت بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ذمہ داری ہے ۔ ایئر ٹریفک کنٹرولر کے پیشے کے لیے بی ایس سی ،جسمانی صحت خاص کر نظر کا درست ہونا لازم ہے ۔
ایک کامیاب ایئر ٹریفک کنٹرولر کو چار مختلف یونٹس میں اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوتی ہے ،1۔فلائٹ انفارمیشن سینٹر 2۔ایریا اپروچ کنٹرول3۔کنٹرول ٹاور4۔ریڈار۔ان میں سے ریڈار پر صرف وہی افراد کام کرتے ہیں، جو پہلے تین یونٹس میں کام کرچکے ہوں۔ 1980ء سے پہلے ہمارے یہاں کل19 ایئر پورٹ تھے ۔اس وقت ملک میں کم و بیش 33ایئر پورٹ ہیں،بڑے ایئر پورٹس میں کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے علاوہ اسلام آباد، لاہور ، فیصل آباد، ملتان، سکھر پشاور کے ایئر پورٹس شامل ہیں۔
ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ جہاز کے پائلٹ کو علم نہیں ہوتا کہ اس سے کتنے فاصلے پر کتنے جہاز موجود ہیں، یہ پائلٹ کو ایئر ٹریفک کنٹرولر بتاتے ہیں۔جس طرح زمیں پر سڑکیں ہوتی ہیں، اسی طرح فضاء میں بھی ٹریفک کے لیے سڑکیں یعنی مخصوص راستے ہوتے ہیں ۔جن پر جہاز رواں دواں رہتے ہیں ۔ایئر ٹریفک کنٹرولر جہاز سے ہر لمحہ رابطے میں رہتے ہیں ۔
گزشتہ برس کی بات ہے، ائیر ٹریفک کنٹرولرز نے علامہ اقبال ایئر پورٹ پر احتجاج کیا تھا۔ مظاہرے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ 25 سال سے محکمانہ پروموشن میں اضافہ نہیں ہوا۔ عرصہ دراز سے ایئر پورٹ پر ریڈار اور کنٹرول سسٹم بھی اپ گریڈ نہیں ہوا۔ ایئر پورٹ پر آلات کی لوکیشن بھی درست نہیں، ایک ایک جہاز کے 40 جہاز نظر آتے ہیں۔ حکومت اور دیگر ذمہ دار اداروں کی انہی پالیسوںکی وجہ سے سے پی آئی اے آج زوال میں کی طرف جا رہا ہے ۔جسکی اہم وجوہات میں پروازوں کی تاخیر ، جہازوں کی ناگفتہ بہ حالت بتائی جاتی ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال