تحریر: منال منیر، جامعہ کراچی
فضائی آلودگی کا اثر ماحول، انسانی صحت اور انسانی زندگی کے معیار کے لیے نقصان کا سبب بنتا ہے جو فضا کو آلودہ کرنے کا باعث ہے۔ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن شامل ہوتی ہے فضا میں موجود آکسیجن گیس ہمیں سانس لینے میں مدد دیتی ہے فضا کی آلودگی انسانی صحت پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے انسانی جسم میں بہت سی بیماریاں منتقل ہوجاتی ہیں جن سے اکثر بیماریاں موت کا سبب بھی بنتی ہیں۔
پاکستان میں قائم زیادہ تر فیکٹریاں انتہائی نا مناسب انداز میں کام کر رہی ہیں۔ فیکٹریوں سے بڑے پیمانے پر خارج ہونے والی نقصان دہ گیس اور فضلہ زمینی و فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور عوام میں شعور آگاہی کی کمی ناخواندگی غیر معیاری اور روایتی صنعتی، طریقہ کار اور غیر ذمہ داری جیسی دیگر وجوہات نے آلودگی کے مسائل کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے۔
دوسری طرف ان ہی فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھویں نے فضاکو بھی آلودہ کر دیا ہے اس کے ساتھ گاڑیوں بسوں اور ریل وغیرہ کے دھوئیں کی وجہ سے ہم زہریلی ہوا پھیپھڑوں میں بھرنے پر عبور ہیں اسکا نتیجہ دماغی کارکردگی میں کمی ان کو سانس پھیپھڑوں اور حلق کی مختلف بیماریوں کی صورت میں سامنے آتا ہے فضائی آلودگی پیڑوں اور پودوں کے پتوں پر جم کر انہیں آکسیجن خارج کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے سے روکتی ہے اس سے عمارتوں کے رنگ و روغن کو نقصان پہنچتا ہے اور ان میں ٹوٹ کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطلق فضائی آلودگی کا شکار ہونے کے بعد ہمیں بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوجاتا ہے مثلا ً: پھیپھڑوں کا سرطان دل کی بیماریوں وغیرہ فضائی آلودگی کی بنا پر ہماری صحت متاثر ہوتی ہے۔ چھینکوں اور کھانسیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے یہ صورت حال آگے چل کر دل کو بھی متاثر کرتی ہے۔
فضائی آلودگی میں خواتین بھی مبتلا ہوتی ہیں گائوں یا قصبہ وغیرہ میں جہاں گیس نہیں ہوتی خواتین اپنے گھروں میں کوئلہ لکڑی جانوروں کے گوبر جلاتی ہیں ان چیزوں کے لئے ان کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور ان خواتین کو سانس کی بیماری، پھیپھڑوں کے کینسر اور نمونیہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
فضائی آلودگی میں حاملہ خواتین بھی ان تمام مسائل کا شکار ہوتی ہیں حاملہ کے دوران انہیں آلودگی سے بچنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے بچے کو صحت مند اور تندرست پیدا کرے اور اس سے ماں کی جان کو بھی خطرہ لاحق نہ ہو۔ آلودگی ہونے کی وجہ سے اکثر عورت اور بچہ Sinuses(الرجی) کا شکار ہوجاتے ہیں اور آج کل Sinuses (الرجی)کا مسئلہ پیدا ہونے والے بچوں میں بھی ہوجاتا ہے جس سے سانس لینے میں بچے کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت اندرونی اور بیرونی آلودگی سے مرنے والے افراد کی تعداد 33 لاکھ ہوچکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پانچ برس سے کم عمر کے بچے زیادہ غیر محفوظ ہیں اور موت کا شکار ہورہے ہیں۔ ہوا کی آلودگی سے بچنے کے لئے ہمیں اور ہماری گورنمنٹ کو درختوں کی کُٹائی کو روکنا ہوگا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانے پر زور دینا ہوگا اس کے لئے خاص پروگرام انعقاد کرنا ہوگا جس میں زیادہ درخت لگانے کی فوقیت پر زور دینا ہو گا۔
تحریر: منال منیر، جامعہ کراچی