اسلام آباد ہائیکورٹ نے ’ججوں کو بدنام‘ کرنے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) سے وضاحت طلب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا اسمبلی کے حزب اختلاف اور سابق ہاوسنگ وزیر اکرم خان درانی کی ضمانت خارج کرنے سے متعلق نیب کی درخواست مسترد کردی۔
واضح رہے کہ نیب نے اکرم خان درانی کے خلاف گزشتہ برس جاری کیے جانے والے وارنٹ گرفتاری واپس لے لیے تھے۔سابق ہاوسنگ وزیر نے گرفتاری سے بچنے کے لیے قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے دائر کی تھی۔جب چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل آئی ایچ سی کے ڈویژن بینچ نے ضمانت کی درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کی تو نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اکرم خان درانی کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ واپس لینے کے بعد یہ درخواست غلط ثابت ہوگئی ہے۔
اس کے بعد انہوں نے عدالت سے معاملہ اسی کے مطابق نمٹانے کی درخواست کی۔17 مارچ کو جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکس دیے تھے کہ نیب نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں آئی ایچ سی کے کچھ ججوں کے ساتھ دیگر جوڈیشل افسران کے خلاف الزامات لگاتے ہوئے ججوں کو بدنام کرنے اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی نیب کی درخواست پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی ریماکس دیے کہ ججوں کو بلیک میل کرنے کی غرض سے یہ کسی تنازع میں گھسیٹنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔بینچ نے نیب سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بیورو کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی رضامندی سے رپورٹ تیار کی گئی ہو تو وہ عدالت کو آگاہ کریں۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب خان نے تاہم عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے میں تفتیشی افسر کو تبدیل کردیا گیا، تفتیش کسی دوسرے افسر کو سونپی گئی ہے۔انہوں نے آئی ایچ سی بینچ کو بتایا کہ اپوزیشن لیڈر کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ واپس لے لیے گئے ہیں اس معاملے کو نمٹانے کی درخواست کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ چونکہ ججوں کے نام نیب کی رپورٹ میں شامل کردیے گئے ہیں لہذا بینچ اس کیس کی تفصیلات پر غور کرے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے کوئی غلط کام کیا ہے اور ہمیں قوائد کے خلاف گھر الاٹ ہوئے ہیں تو ہم بھی جوابدہ ہیں۔2015 میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے مبینہ طور پر آئی ایچ سی کے عدالتی افسران اور عملے کو سرکاری رہائش گاہوں کی سب سے بڑی جگہ الاٹ کی تھی۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی درخواست ضمانت ختم کرنے کے لیے نیب کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بینچ نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ وہ تفتیشی افسر کی رپورٹ پیش کرے اور اس کیسز کی سماعت 12 مئی تک ملتوی کردی۔ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر راجہ انعام آمین منہاس نے کہا ہے کہ نیب نے عدلیہ کی ساکت خراب کرنے کے لیے من گھڑت رپورٹ تیار کی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس من گھڑت رپورٹ کے پیچھے نیب کے چیئرمین کے ساتھ دیگر عہدیداروں کا عمل بدانتظامی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت کے وکلا عدلیہ کو نشانہ بنانے کے اس فعل پر ناراض ہیں اور ایک مناسب فورم کے سامنے نیب کے چیئرمین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 28