لاہور (ویب ڈیسک) اب فوادچودھری کو چاہیے کہ وہ اپنی تمامتر توجہ العزیزیہ اور فلیگ شِپ ریفرنسز پر مرکوز کر دے کیونکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں کچھ باقی نہیں بچا۔ یہ یقین کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ جب بھی آئے، شریف فیملی کے حق میں ہی آئے گا۔ العزیزیہ اور فلیگ شِپ ریفرنسز صرف میاں نوازشریف کے خلاف ہیں
نامور خاتون کالم نگار پروفیسر رفعت مظہر اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس لیے یہ طے کہ نوازلیگ کی ’’شیرنی‘‘ اور میاں نوازشریف کی جانشین مریم نواز تو بہرحال آزاد فضاؤں ہی میں رہے گی جو تحریکِ انصاف کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے کافی ہے۔ بات پہلے تولو ، پھر بولو سے شروع ہوئی اور پہنچ گئی فوادچودھری پر۔ یہ فوادچودھری ہی نے کہا تھاکہ پہلے تین ماہ میں کوئی بیرونی دورہ نہیں کیا جائے گا اور تین ماہ بعد جو دورہ کیا جائے گا، وہ بھی عام جہاز میں۔ لیکن ہوا یہ کہ پہلے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے دورے پر چلے گئے پھر وزیرِاعظم نے سعودی عرب اور دبئی کے لیے رختِ سفر باندھا، وہ بھی عام جہاز پر نہیں، خصوصی طیارے پر۔ اِسی طیارے کے اندر فوادچودھری بھی موجود تھے۔ پتہ نہیں اُن کا ضمیر اُنہیں ملامت کرتا ہو گا کہ نہیں لیکن واپسی پر وزیرِاعظم کو یہ کہنا پڑا کہ طے تو یہی تھا کہ پہلے تین ماہ تک کوئی دورہ نہیں کیا جائے گا لیکن برادر اسلامی ملک سعودی عرب کا دورہ اور عمرے کی سعادت حاصل کرنا ضروری تھا۔ ہمیں اِس پر تو قطعاََ کوئی اعتراض نہیں کہ وزیرِاعظم صاحب غیرملکی دورے پر کیوں گئے، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ
آپ وہ کہتے کیوں ہیں جو کر نہیں سکتے۔ کپتان صاحب کو اپنے بہت سے یو ٹرن یاد ہوں گے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تولنے سے پہلے بولتے ہیں۔ اب وہ ماشاء اللہ ایٹمی پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں، خُدارا! اب تو وہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ ایک اور مخلصانہ مشورہ یہ کہ وزیرِاعظم صاحب اپنی دوستیاں اپنی ذات تک محدود رکھیں، اُن کی ملکی امور میں مداخلت مناسب نہیں۔ یہ اُنہی کے حق میں بہتر ہے کیونکہ آصف زرداری بھی دوستیاں پالتے پالتے اِس مقام پر پہنچے۔ کپتان نے اپنے ذاتی دوستوں، احسان مانی، ذاکر خاں اور سب سے بڑھ کر زُلفی بخاری کو حکومتی عہدوں سے نوازا۔ زلفی بخاری کو معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی بنایا گیا جس کا درجہ وزیرِمملکت کے برابر ہے۔ اِس پر میڈیا میں شور اُٹھا اور حامد میر جیسے سینئر لکھاری اور اینکر نے بھی اِس تقرری پر کھُل کر تنقید کی۔ عمران خان صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا ’’ زلفی بخاری برطانوی شہری ہے، نیب اُسے طلب نہیں کر سکتی‘‘۔ یہی بات فواد چودھری نے بھی بار بار دہرائی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک غیرملکی شہری پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا تو وہ معاونِ خصوصی کیسے بن سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کا بھی واضح فیصلہ آچکا کہ دوہری شہریت کا حامل شخص نہ تو انتخابات میں حصّہ لے سکتا ہے اور نہ ہی اُسے کوئی حکومتی عہدہ دیا جا سکتا ہے۔محض خاں صاحب کا ذاتی دوست ہونے کو معیار بنا کر زلفی بخاری کو حکومتی امور میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا ۔اگر عون چودھری اور زلفی بخاری جیسے محرمِ راز اصحاب کو حکومتی عہدے تفویض کرنا ہی معیار ٹھہرا تو پھر بیچارے مفتی محمد سعید کا کیا قصور ؟۔ وہ بھی تو محرمِ راز ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اُسے اور کچھ نہیں تو کم از کم اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین ہی بنا دینا چاہیے۔