تحریر : قراة العین سکندر
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عورت کو زندہ زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔جس کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی ملتا ہے۔یہ اسلام ہی تھا جس نے ایک عورت کو سر اٹھا کر مردوں کے اس معاشرے میں جینے کا حق دیا۔اسلام نے عورت کو نہ صرف زندگی عنایت کی بلکہ مردوں کے مساوی حقوق بھی عطا کیے۔مگر جدید دور میں آزادی نسواں کا نعرہ لگانے والی مغربی تہزیب جو مرد و عورت کو مساوی درجہ دیتے ہوے انھیں زندگی کے تمام شعبہ جات میں شانہ بہ شانہ کھڑا دیکھنے کی خواہاں اور متمنی ہے۔اگر مساوات کا یہ مطلب لیا جاے کہ ہر آدمی ہر شعبہ میں کام کرنا چاہے تو اس کو اس کا حق اور شعور حاصل ہے۔تو یہ سراسر غیر فطری مساوی نظریہ ہوگا کیونکہ ہر شخص محض اپنی وسعت اور استعداد کے خواہ وہ علمی ہو یا جسمانی ذہنی ہو یا قلبی رحجان پر مبنی ہو اس کے عین مطابق ہی کام سرانجام دے سکے گا اگر کہا جاے کہ تمام لوگ ایک ہی فیلڈ کو اپنا لیں تو یہ سراسر نا انصافی اور نری بیوقوفی پر مبنی راے ہو گی۔
در حقیقت جس مساوات کا درس اسلام دیتا ہے اسکا اصل مفہوم یہ ہے کہ عمل میں نہیں بلکہ حیثیت میں مساوی سلوک۔جس کا مقصد عورت کو مرد کا محکوم اور غلام نہ تصور کیا جاے بلکہ اسے ذی ہوش اور ذی شعور مانا اور گردانا جاے۔مگر ہمارا ایک یہ بھی المیہ ہے کہ ہم دین اسلام کے قوانین اور اصولوں کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں۔اس فرق کا آغاز بچپن میں ہی روا رکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔انڈہ پراٹھا گوشت پہلے بیٹے کے لیے نکالا جاتا ہے اس کو پیش کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بیٹا ہوتا ہے باقی ماندہ بچ جانے والا کھانا بعد میں بچی کو دیا جاتا ہے۔یہ امتیازی سلوک قدم قدم پر اسے احساس دلاتا رہتا ہے کہ وہ ایک لڑکی ہے۔جس کی پیدائش ہی ایک طعنہ اور طشنع ہو تی ہے دکھ اور احساس محرومی کا یہ شعور ان لڑ کیوں کو یہی معاشرہ دلاتا ہے۔بچی کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھای جاتی ہے۔اسے ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔
کیونکہ بیٹا تو کل کلاں کما کر کھلاے گا بیٹی تو فقط روٹی کا جہیز کا تقاضا کرنے والی ایک آسیب ہے۔اگر اس تصور کو غلط ثابت کرنے کے لیے لڑکی پڑھنا چاہتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے اگلے گھر جا کر گھر گھرہستی کام آے گی تو جب وہاں جا کر بھی چولہا چوکی کرنی ہے تو کیا فائدہ ماں باپ کا پیسہ برباد کرنے کا۔یعنی اسے اسی وقت ہی لمحہ بھر میں یہ کہ کر بیگانہ کر دیا جاتا ہے کا تم نے اگلے گھر جانا ہے۔رفتہ رفتہ یہ سوچ اس کے دماغ میں ڈال دی جاتی ہے تم پراء ھو اور وداع ہو کر جس گھر جاتی ہے ان کے لبوں پر بھی یہی الفاظ اکثر و بیشتر ہوتے ہیں تم تو پراے گھر سے آء ہو تمہیں کیا معلوم۔
حالانکہ تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے مرد اگر علم حاصل کر کے نوکری کرتا ہے تو عورت تعلیم حاصل کرکے قوم کے معمار تیار کرتی ہے۔اور اسلام نے تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لیے لازمی قرار دی ہے۔اور عورت کو بھی علم و شعور کی منازل طے کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک مرد کو۔پھر ہمارے معاشرے کا ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ رشتہ ناطہ کے وقت عورت کو بھیڑ بکری کی مانند پرکھا اور تولا جاتا ہے۔رشتہ کا معیار یہ ہوتا ہے کہ خوبصورت ہو ماڈرن ہو اسمارٹ ہو امور خانہ داری میں بھی ماہر ہو اور سب سے بڑھ کر بے زبان ہو۔اگر بالفرض کسی رشتہ پر آمادگی ہو بھی جاتی ہے تو بعد میں سو عیب دکھای دینے لگتے ہیں۔پھر مختلف قسم کے طعنے عورت کا تعاقب کرتے ہیں۔
جہیز کا طعنہ چھوٹے قد کا طعنہ موٹے تو کبھی بہت دبلا ہونے کا طعنہ چلتی کیسے ہے اوڑھتی کیسے ہے نخرے سے بولتی ہے بڑی گھنی ہے۔کیا یہ طعنے کبھی کسی مرد کو بھی سننے کو ملتے ہیں۔وہ تو اک شان بے نیازی سے کسی اپسرا کے منتظر ہوتے ہیں یہ جانے اور سمجھے بنا کہ ان کی فرمایشوں کے انبار نے کسی لڑکی کے نازک دل کو کس بیدردی سے روند ڈالا ہے۔سب سے زیادہ المناک بات تو یہ ہوتی ہے کہ یہ طعنوں کی سوغات ایک عورت ہی دوسری عورت کو تحفتا نسل در نسل لوٹاتی ہے مگر اس سب کے پس پردہ ایک مرد ہوتا ہے۔پھر لڑکی کو تو پسند نا پسند کی ہر کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے مگر لڑکی کو رشتہ ازدواج میں کسی بھیڑ بکری کی مانند کسی بھی کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔اس کی رضامندی کو رتی بھر اہمیت نہیں دی جاتی اوردلیل اسلام کی دی جاتی ہے کہ اسلام میں اجازت کی ضرورت نہیں۔
جبکہ خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت اقدس میں حضرت علی نے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ کا رشتہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیر لب مسکراے اور فرمایا انتظار کریں اور خود حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لاے اور فرمایا علی کا رشتہ آیا ہے جس پر اللہ راضی ہے اور اللہ کا رسول بھی راضی ہے اگر آپ بھی رضامندی ظاہر کر دیں تو علی کو یہ خوشخبری سنا دی جاے۔سبحان اللہ اور آج کا معاشرہ ایک تو راے تک کی آزادی دینے کا روا دار نہیں اور پھر ایک کم عمر بچی کی شادی ستر سالہ بوڑھے سے کر دی جاتی ہے تاکہ سر سے بوجھ بھی اترے اور روپوں کی صورت فائدہ بھی حا صل ہو۔
پھر ایک رخ یہ بھی ہے کہ وراثت میں لڑکی کو کوی حصہ نہیں دیا جاتا یہی دلیل دی جاتی ہے کہ شادی کے وقت جہیز کی مد میں جو لگا دیا گیا وہی کافی ہے۔مگر اسلام کا نقطہ نظر تو یہ نہیں بے شک ساد گی سے رخصت کرو مگر وراثت میں حصہ دو۔اور اگر کوی بھی کلمہ گو ہے تو اس بات سے منکر نہیں ہو سکتا نہ اس کو جھٹلا سکتا ہے کیونکہ خود قرآن پاک میں مذکور ہے۔ لڑکی کو علم سے اسی لیے روشناس نہیں کر وایا جاتا کہ کہیں وہ اپنے حقوق سے آگاہی نہ حا صل کر لے علم و شعور کی منازل طے کر لیں تو ہم سے اپنا حق نہ طلب کر لے۔
پھر ہمارے معاشرے میں لو گوں کے باقاعدہ دو گروہ ہیں جن میں سے ایک تو عورت کو بے جا آزادی دیتا ہے اور پردے کے حکم کو ہی فراموش کر ڈالتا ہے اور بے جا آزادی عورت کی دین سے دوری کا سبب بن جاتی ہے اور یہ نہایت خطرناک بات ہے جو خود عورت کی ذات پر بھی ایک ظلم ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو عورت کو بے جا قید میں رکھنے کا خواہاں ہے۔
پردے کی آڑ میں اس عورت سے جینے تک کا حق غصب کر لیا جاتا ہے۔مگر اسلام تو اعتدال کا دین ہے راستی کا علمبردار ہے وہ پردے اور عزت و عصمت کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔مگر ساتھ ہی جینے کا حق بھی دیتا ہے۔ایک حد بندی میں رہ کر علم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے اس کی سب سے اعلی مثال حضرت عائشہ ہیں جنھوں نے با پردہ رہ کر دین کا اتنا علم حاصل کیا۔کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔آدھا دین عائشہ سے لو۔ اللہ پاک ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرماے۔آمین
تحریر : قراة العین سکندر