تحریر: مہر بشارت صدیقی
مبینہ انتخابی دھاندلی کیخلاف طویل ترین دھرنے سے ملکی سیاست میں ہنگامہ برپا کرنے والی تحریک انصاف کودھرنے کے بعد آٹھویں مرتبہ انتخابی نشست پر شکست کھا نی پڑ گئی۔ تحریک انصاف نے 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے گزشتہ سال اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دیاتھا جو14 اگست 2014 سے شروع ہوا اور 17 دسمبر 2014 تک 126 روز جاری رہا۔ لیکن دھرنے کے بعد کی حقیقت کا تحریک انصاف کو مختلف حلقوں میں ہونیوالے ضمنی انتخابات میں پتہ چل گیا۔
دھرنے کے بعد تحریک انصاف نے جتنے بھی الیکشن لڑے ان میں سے بیشتر میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ پی ٹی آئی کو این اے 137 ننکانہ صاحب ، این اے 246 کراچی ، این اے 108 منڈی بہائوالدین، این اے 19 ہری پور، این اے 122 لاہور ، این اے 144 اوکاڑہ ، صوبائی اسمبلی کی نشستوں پی پی 196 ملتان اور پی پی 100 گوجرانوالہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ این اے 137 میں امیدوار کی وفات کے بعد 15 مارچ کو الیکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں مسلم لیگ ن کی ڈاکٹر شازرہ منصب نے 77 ہزار 8 سو نوے ووٹ لے کر میدان مار لیا جبکہ پی ٹی آئی کا امیدوار 39 ہزار چھ سو پینتس ووٹ حاصل کرسکا۔ این اے 246 میں نبیل گبول کے استعفے کے بعد 24 اپریل کو الیکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل نے 95 ہزار6 سو44ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے عمران اسماعیل 24 ہزار 8 سو 21 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
پی پی 196 میں چودھری عبدالوحید کو نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے 21 مئی کو الیکشن کا انعقاد کیا گیا جس میں مسلم لیگ ن کے رانا محمودالحسن نے دس ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ، پی ٹی آئی کے رانا عبدالجبار دوسرے نمبر پر رہے۔ این اے 108 میں چودھری اعجاز کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد 8 جون کو ہونے والے الیکشن میں ن لیگ کے ممتاز احمد نے 77 ہزار 8 سو84 ووٹ لے کر میدان مار لیا ، پی ٹی آئی کے طارق 40 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ پی پی 100 گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن کے امیدوار رانا شمشاد احمد خان کی وفات کے باعث 26 جولائی کو الیکشن کرایا گیا جس میں مسلم لیگ ن کے رانا اختر علی نے تحریک انصاف کے احسان اللہ ورک کو 21 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تحقیقات کر رہے ہیں کہ آخری لمحوں میں تحریک انصاف کے ووٹ حلقے سے باہر کیسے منتقل ہوئے ،این اے 122ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کی اخلاقی فتح ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر عمران خان نے اپنے جاری کر دہ پیغام میں کہا ہے کہ وہ علیم خان اور شعیب صدیقی کو وفاقی اور صوبائی حکومت کیخلاف شاندار مقابلے پر مبارک باد دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ علیم خان نے وفاقی اور صوبائی حکومت کا ضمنی انتخاب میں ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ تحریک انصاف کی اخلاقی فتح ہے۔عمران خان کا کہناتھا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں اور وہ یہ بھی سیکھ رہے ہیں کہ ن لیگ کے دھاندلی کے طریقوں سے کیسے نمٹا جائے۔تحریک انصاف کے رہنما چودھری سرور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہمارے کچھ ووٹرز کا ووٹ دوسرے حلقوں میں منتقل کر دیا گیا جو کہ غیر قانونی ہے۔ بدانتظامی کی وجہ سے بھی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز خوار ہوتے رہے۔ تحفظات کے ساتھ این اے 122 کا نتیجہ تسلیم کرتے ہیں اگر ووٹوں کی منتقلی کے ثبوت ملے تو بھرپور احتجاج کریں گے۔ علیم خان نے صوبائی اور وفاقی اداروں کے خلاف الیکشن لڑا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا لاہور کے ضمنی الیکشن میں ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیری گئیں کیونکہ صوبائی اور وفاقی وزرا الیکشن کمپئین میں حصہ نہیں لے سکتے۔
مسلم لیگ ن کسی خوش فہمی میں نہ رہے کہ اگر ہم لاہور میں اتنا ووٹ لے سکتے ہیں تو پنجاب اور پاکستان میں بھی ہم منظم ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما امیدوار عبدالعلیم خان نے کہا نادرا کی جانب سے ووٹرز لسٹ شیڈول کے بعد موصول ہوئی اور ہمارے 2013 کے ووٹرز کا ووٹ تبدیل کر دیا گیا تھا۔ میرے حلقے میں باہر کے لوگوں کے ووٹوں کا اندراج کیا گیا اور جلد حقائق عوام اور میڈیا کو دکھائیں گے کہ کیسے ووٹوں کا اندراج کیا گیا۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ناخوشگوار انتخابی مہم کو خیر باد کہہ دیں تاکہ سیاست کا رُخ واپس عوام کے اصل مسائل کی طرف ہو سکے۔ کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بامقصد انتخابی اصلاحات کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اس حقیقت کا خیر مقدم کیا ہے کہ اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات عمومی طور پر پُرامن رہے۔ حالانکہ لوگوں کی سوچ اس کے بالکل برعکس تھی انتخابی مسابقت یا مقابلہ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس حوالے سے ایچ آر سی پی ایسے ہر نتیجے کا خیر مقدم کرتا ہے جس سے جمہوری عمل کو فروغ ملتا ہو لیکن کمیشن یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہے کہ بندوق کی نوک پر اور فوج کی نگرانی میں ایسی کوئی کارروائی کرنا جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ضمنی انتخابات میں ایسے بہت سے دوسرے عناصر بھی سامنے آئے جن کا جمہوریت کے فروغ میں شاید کوئی کردار نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ انتخاب انتہائی مہنگا بلکہ بہت زیادہ مہنگا انتخاب تھا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ این اے 122 کا ضمنی انتخاب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں ہی کے لیے عزت اور وقار کا مسئلہ بن چکا تھا۔ بہت سے لوگ ایسے انتخاب کو جمہوری تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے جس میں اس قدر دولت ضائع کی گئی ہو۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صرف امراء ہی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ خصوصاً لاہور کے ضمنی انتخاب میں دونوں جماعتوں نے ناخوشگوار انتخابی مہم چلائی اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف تکلیف دہ باتیں کیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کا مذاق اڑایا، ایک دوسرے پر بہتان تراشیاں کیں اور ایک دوسرے پر ذاتی حملے کیے۔کمیشن نے مزید کہا کہ ”لوگوں کے مسائل ان سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ خود پسندی، انا پرستی، مجہول غرور سے کہیں زیادہ بڑے مسائل سے دوچار ہیں۔ جمہوریت کے حوالے سے ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ یہ کافی اہم مسائل ہیں۔ اس کے باوجود گورننس اور دوسرے اہم مسائل پر توجہ بہت کم دی گئی۔ ہر انتخاب میں ایک امیدوار جیتتا ہے اور دوسرا ہار جاتا ہے۔ لیکن انتخابات کو دوسروں کے نقصان کے لیے استعمال کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔ اتوار کے ضمنی انتخاب کو مہنگی ترین فتح ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا اعزاز ہے کہ اس نے اس انتخاب کو بے حد سخت مقابلہ بنا دیا۔
انتخابی نتائج ہر سیاسی تنظیم کی آنکھیں کھول دینے کے لیے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ اتوار کے ضمنی انتخاب میں بہت سی تنبیہات موجود ہیں جن سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ صرف حزب اختلاف نہیں بلکہ حکومت کے لیے بھی بہت سے اسباق موجود ہوتے ہیں۔” کمیشن نے امید ظاہر کی کہ انتخابی نتیجہ کا نشہ جیتنے والے کے سر کو نہیں چڑھے گا۔ اس کو یاد رکھنا ہو گا کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے خلاف ووٹ دئیے ہیں اور بہت سے لوگوں نے ووٹ کا حق استعمال ہی نہیں کیا۔ اب یہ تمام سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سیاست کا رُخ دوبارہ مسائل کی طرف موڑا جائے اور لوگوں کو باور کرایا جائے کہ تمام چیلنجوں کا سامنا جمہوری طریقے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایچ آر سی پی تمام سیاسی جماعتوں پر عاجزانہ استدعا کرتا ہے کہ وہ مل جل کر انتخابی اصلاحات پر کام کریں اور ان اصلاحات کو تیار کر کے متعارف کروائیں اور یہ کام صرف اور صرف سول ذرائع ہی سے ہونا چاہیے تاکہ آئندہ انتخابات بہتر طریقے سے منعقد ہو سکیں۔ ایچ آر سی پی سیاسی قوتوں کو متنبہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ انتخابی اصلاحات میں مزید تاخیر کے نتیجے میں وقیع تبدیلیاں اور عمومی اتفاق رائے مشکل ہو جائے گا۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی