اسلام آباد: لاہور ہائی کورٹ کا حالیہ حکم نامہ جس میں پی ٹی آئی رہنما علیم خان کی درخواست ضمانت منظور کی گئی تھی۔ وہ ان مقدمات کے سلسلے میں تازہ ترین اضافہ ہے، جس میں احتساب کے نام پر نیب کی نااہلی ، بدنیتی اور اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ کے حکم نامے میں انکشاف ہوا ہے کہ استغاثہ(نیب)نے علیم خان کے کیس میں واضح طور پر اعتراف کیا کہ نیب کوئی ایسا دستاویز حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ دعویٰ کی گئی جائیداد درخواست گزار (علیم خان)کی ملکیت میں تھےاور وہ رقم جس کے ذریعے یہ جائیدادیں خریدی گئیں وہ پاکستان سے لی گئی تھیں۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اس کے علاوہ استغاثہ بینکر ز یا ریونیو عہدیداروں کا کوئی بیان دکھانے میں ناکام رہا ، جس سے یہ ثابت کیا جا سکتا کہ درخواست گزار نے جو جائیداد خریدی تھی اس کی قیمت ان کی ظاہر کردہ رقم سے زیادہ تھی۔ل اہور ہائی کورٹ کے حکم نامے کے مطابق، آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے میں ابتدائی طورپر ثبوت پیش کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ، جس کے بعد یہ بوجھ ملزم پر منتقل ہوجاتا ہے اور اسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس نے جو جائدادیں خریدی ہیں ، وہ معلوم ذرائع کی آمدنی ہے۔
اب تک استغاثہ یہ بتانے سے قاصر رہا ہے کہ درخواست گزار نے جو جائدادیں خریدیں یا لین دین سے تعمیر کیں ا ن کی اصل تعداد کتنی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درخواست گزار پر جب وہ صوبائی وزیر اطلاعات تھے اس مدت کے دوران ان پر کرپشن یا کرپٹ افعال کا کوئی الزام نہیں تھا۔لاہور ہائی کورٹ کے حکم نامے کو پڑھنے سے یہ بنیادی سوال ابھرتا ہے کہ اگر نیب کے پاس علیم خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا تو انہیں گرفتارکیوں کیا گیا اور انہیں کئی ماہ تک جیل میں رکھا گیا۔یہ کہا گیا کہ یہ نیب کی بدنیتی اور نااہلی کا ایک اور بہترین کیس ہے۔پہلے ہی حالیہ چند ماہ میں لاہور ہائی کورٹ کو اختیارات کے غلط استعمال ، قانون، قواعد و ضوابط کی کوئی پامالی تین مختلف کیسز میں نہیں ملی جو کہ شہباز شریف اور دیگر کے خلاف دائر کیے گئے تھے۔اس کے بجائے عدالت نے کہا تھا کہ کوئی کرپشن، خفیہ معاہدے، کمیشن یا غیر قانونی اجازت نہیں دی گئی ، یہاں تک کے اس کا الزام نیب نے لگایا تھا۔نیب نے تین بار وزیراعلیٰ رہنے والے اور ان کے اہم بیوروکریٹ معاونین کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال اور بے ضابطگیوں کا الزام عائد کیا تھا تاہم وہ کسی بھی الزام کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔اس حقیقت کے باوجود کہ ضمانت دیتے وقت عدالتیں الزامات کی تھوڑی بہت جانچ پڑتال کرتی ہیں اور زیادہ گہرائی میں نہیں جاتی۔تاہم، لاہور ہائی کورٹ نے کم از کم دو کیسز صاف پانی اور رمضان شوگر کے معاملے میں نیب کے حوالے سے بدنیتی دیکھی۔ہائی کورٹ کے فیصلوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بے گناہ افراد جن کی ذات اور پیشہ ورانہ حیثیت پر کوئی داغ نہ ہو ان کا کئی ماہ تک نیب کی حراست میں ریمانڈ ہوتا رہا۔انہیں کئی ماہ تک جیلیں بھگتنا پڑیں وہ بھی ان کیسز میں جہاں کسی غلط کام کا ارتکاب نہ ہوا ہوتو کرپشن تو دور کی بات ہے۔
آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز کیسز میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شہباز شریف نے نہ ہی اختیارات کا غلط استعمال کیا اور نہ منصوبوں کے لیے مختص فنڈز میںکوئی خردبرد کی اور نہ ہی غیر قانونی فوائد یا کمیشن حاصل کیے۔آشیانہ کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ ریاست کی ایک انچ زمین بھی کسی کو نہیں دی گئی۔صاف پانی کیس میں مینجمنٹ نے تقریباً40کروڑ روپے بچائے ، جب کہ رمضان شوگر ملز کیس میں عدالت نے کہا کہ نکاسی سے متعلق جو نیب نے الزام لگایا تھا کہ وہ رمضان شوگر ملز کے لیے تعمیر کیے گئے تھے وہ دراصل عوامی فلاح وبہبود کا منصوبہ تھا۔نیب کے آشیانہ کیس سے متعلق لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی حکومت کی ہائوسنگ اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے نیب کا دہرا معیار واضح کیا اور کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیب کیوں یہ اصرار کررہا ہے کہ یہ منصوبہ (آشیانہ ہائوسنگ)کوپبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ طریقے کے بجائے حکومتی طریقے سے مکمل کیا جائے ، جب کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا طریقہ کار بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ایکٹ،2014کے تحت قانونی ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ حکومت نے پاکستان میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا جو کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ہے اور اس پر اب تک نیب نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ہے۔لاہور ہائی کورٹ نے صاف پانی کیس میں کہا کہ نیب نے اس کیس میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ملزمان کے خلاف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ، کرپشن کے الزامات یا کمیشن کے حوالے سے کچھ نہیں ملا۔متعدد ماہرین قانون کے مطابق، جن میں کچھ نے اپنی رائے کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کیاکہ بحیثیت ادارہ اور اس کے عہدیداروں کی جانب سے یہ بےہودہ الزامات ہیں ۔ان عدالتی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے ذرائع کا کہنا ہے کہ انسداد بدعنوانی کے نظام میں جسے نیب چلا رہا ہےکے معمولات پر یہ افسوس ناک تبصرہ ہے۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ نیب کی مشتبہ صلاحیتوں اور ارادوں سے سب واقف ہیں لیکن زیادہ تکلیف دے اور پریشانی کی بات ٹرائل کورٹس کی نیب کے معاملے پر جوڈیشل طریقہ کار کی حالت ہے۔ادھر نیب حکام کا کہنا ہےکہ نیب پہلے ہی اپیل میں جانے کا اعلان کرچکا ہے اور اس کے پاس ثبوت موجود ہیں۔