سیّد علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ کے 973 ویں عُرس کی تقریبات کا انعقاد عقیدت و احترام سے ہوا۔ یوں تو ہر دِن اور ہر رات دربار داتا صاحب پر عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے لیکن عُرس مبارک کے دِن تو ہندوﺅں کے ” دشنو دیوتا“ کے اوتار ” بھگوان رام “ کے بیٹے ” لہو“ کے نام پر آباد ہونے والا ” لاہور“ واقعی ” داتا کی نگری“ دکھائی دیتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ لاہور میں اب بھی بادشاہت تو حضرت داتا صاحب کی ہے۔ لاہور میں خوبصورت اور اسلامی ناموں والے ”خاندانِ غلاماں“ کے سُلطان قُطب اُلدّین ایبک اور سلطان ابنِ سُلطان مُغل بادشاہ نور اُلدین جہانگیر اور اس کی چہیتی ملکہ نور جہاں کی قبریں بھی ہیں لیکن اُن کی قبروں پر کوئی چراغ جلانے اور پھول چڑھانے کے لئے نہیں جاتا ۔ ملکہ نور جہاں شاعر ہ بھی تھی۔ اُس نے مرنے سے پہلے ہی کہا تھا کہ ….
” بَر مزارِ ماغریباں، نَے چراغے، نَے گُلے!“
یعنی ” ہم غریبوں کے مزار پر کوئی بھی چراغ جلانے اور پھول چڑھانے نہیں آتا“۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی بادشاہت آج بھی قائم ہے۔ پاکستان کے فوجی آمر ” جمہوری لیڈر“ فیشن کے طور پر دربار داتاصاحب ؒپر حاضری دیتے تھے / ہیں ۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے زوال کے دِنوں میں کہا تھا کہ ” مَیں نے دربار داتا صاحبؒ کا دروازہ سونے کا بنوا دِیا ہے “۔ بھٹو صاحب نے بھوکے ننگے اور بے گھر لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان فراہم کرنے کا وعدہ کِیا تھا۔ پُورا نہیں کِیا ۔ اُن لوگوں کی بددُعائیں انہیں تختہ¿ دار پر لے گئیں۔
حضرت داتا صاحب کے عُرس کے موقع پر وزیراعظم میاں نواز شریف لاہور میں تھے لیکن اُن کے پاس حضرت داتا صاحب کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے لئے وقت نہیں تھا ۔ وہ اپنے بیٹے (پانامہ لِیکس فیم ) حسین نواز کو ساتھ لے کر پیپلز پارٹی کے مرحوم سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر کی تعزیت کے لئے اُن کے گھر چلے گئے ۔ ایک دِن اُنہیں داورِ حشر کی عدالت میں پیش ہو کر جواب دینا ہوگا کہ ”جہانگیر بدر کے برادرِ نسبتی (قومی خزانے سے 82 ارب روپے غبن کرنے والا اوگرا کے برطرف چیئرمین ) توقیر صادق کو سپریم کورٹ کے حکم سے دُبئی سے گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا تھا اور ضمانت کرانے کے بعد وہ داتا کی نگری میں کُھلا پھر رہا ہے ، پھر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اُس کے خلاف مقدمے کی پیروی کیوں نہیں کی؟۔
وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر اُن کے عُرس کی تقریبات کا افتتاح کِیا۔ وزارتِ خزانہ کا چارج سنبھالنے کے فوراً بعد جون 2013ءمیں راولپنڈی میں عالمی میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے جنابِ ڈار نے ” انکشاف“ کِیا تھا کہ ”مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ نے آن ڈیپوٹیشن وزیر خزانہ بنا کر اسلام آباد بھجوایا ہے“۔ پاکستان میں داتا صاحب کے عقیدت مند ابھی تک نہیں سمجھ پائے کہ ڈار صاحب نے داتا صاحب کے لنگر کی طرح پاکستان کے ہر شہر میں لنگر کا انتظام کیوں نہیں کیا؟۔
چودھری محمد سرور پنجاب کے گورنر تھے ۔ 18 دسمبر 2013ءکو ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بسائے ہُوئے ”ڈیرے“ (ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور) میں ان کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے ”تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ کی طرف سے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تحریکِ پاکستان کے 147 کارکنوں ( یا اُن کے وارثوں) کے گلوں میں گولڈ میڈلز ڈالے۔ میرے گلے میں میرے والدِ مرحوم رانا فضل محمد چوہان کا گولڈ میڈل ڈالا گیا ۔ تقریب کے بعد 1981ءسے میرے دوست گلاسگو کے ”بابائے امن“ ملک غلام ربانی مجھے گورنر ہاﺅس لے گئے اور گورنر چودھری محمد سرور ہمیں حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار ۔ وہاں اُنہوں نے پاک اوسس کمپنی کی طرف سے سولر واٹر فلٹریشن پلانٹ کا افتتاح کِیا ۔ اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کی تو مَیں نے پوچھا کہ ”چودھری صاحب! آپ بعض مقامات پر پینے کا صاف پانی مفت فراہم کر رہے ہیں اور دربار داتا صاحب میں بھی ۔ یہاں تو بعض مخیّر مسلمانوں کی طرف سے زائرین کو ہر وقت مفت کھانا مِلتا ہے ۔حکومتِ پنجاب اِس طرح کا انتظام کب کرے گی ؟“۔ گورنر پنجاب نے جواب دِیا کہ ”پنجاب کے چیف ایگزیکٹو تو وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف ہیں “۔ مَیں نے کہا کہ ”وزیراعلیٰ نے تو عوام کے لئے سستی روٹی فراہم کرنے کا اپنا منصوبہ بھی ختم کردِیا ہے ۔ کیوں؟“ گورنر صاحب نے کہا کہ آپ اُن سے پوچھیں ؟۔
تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے پہلے 28 مئی 2013ءکو ” یومِ تکبیر“ کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان میں ڈاکٹر مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے اعلان کِیا کہ ”مَیں نے اپنی وزارتِ عظمی کے پہلے دَور میں ” ایٹمی دھماکا“ کِیا تھا ۔ اب مَیں معاشی دھماکا کروں گا“۔ جنابِ وزیراعظم نے ابھی تک وہ وعدہ پورا نہیں کِیا۔ 10 دسمبر 2014ءکو حضرت داتا صاحب کے 971 ویں عُرس کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان میں منعقدہ تقریب میں پنجاب کے وزیرِ اوقاف و مذہبی امور میاں عطا محمد مانیکا مہمانِ خصوصی تھے ۔ اُنہوں نے محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے تحت حضرت داتاصاحب کی تصنیف ” کشف اُلمحجوب“ کی درس و تدریس کا اہتمام کرنے کا اعلان کِیا۔
اِس پر ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید نے کہا تھا کہ ”وزیراعظم میاں نواز شریف سے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دَور میں یومِ اقبالؒ کے موقع پر الحمراءلاہور میں منعقدہ تقریب میں میری درخواست پر ڈاکٹر مجید نظامی صاحب سے وعدہ کِیا تھا کہ ”مَیں لاہور میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے نام پر”علی ہجویری یونیورسٹی“ قائم کروں گا “۔ شاہد صاحب نے مانیکا صاحب کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”آپ وزیراعظم صاحب کو اُن کا وعدہ یاد دلائیں“۔ مانیکا صاحب نے یہ وعدہ کر لِیا تھا لیکن مانیکا صاحب تو اپنے” عظیم قائد“ کو اُس وقت اُن کا وعدہ یاد دلائیں گے جب انہیں اُن سے شرفِ ملاقات حاصل ہوگا۔
حضرت داتا صاحب نے فرمایا تھا کہ ”اگر کوئی مسلمان مُشکلات میں مُبتلا ہو تو وہ اپنے والد سے دُعا کرائے اور اگر والد حیات نہ ہو تو اُس کی قبر پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگے کہ ”اے پروردگار! میرے والد مرحوم کے صدقے میری مشکلات حل کردے!“۔ حضرت داتا صاحب کی ہدایت پر عمل کر کے مَیں اپنے والد صاحب کی وساطت سے اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کی دُعاﺅں سے فیض یاب رہا۔ میاں نواز شریف اپنے والدِ میاں محمد شریف صاحب کی بہت عزت کرتے تھے ۔ اب وزیراعظم نواز شریف مُشکلات میں گِھرے ہیں ۔ میرا اُنہیں مفت مشورہ ہے کہ ”وہ فوراً اپنے والدِ مرحوم کی قبر پر حاضری دیں اور اُن کے صدقے اپنی مُشکلات حل کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگیں، اپنے وعدوں کے مطابق معاشی دھماکا کریں اور ”علی ہجویری یونیورسٹی“ بھی قائم کریں “۔ حضرت داتا صاحب کی طرف سے آن ڈیپوٹیشن وزیر خزانہ بننے کا دعویٰ کرنے والے اسحاق ڈار اپنے والد صاحب کی قبر پر حاضری دیں یا نہ دیں۔ میرا مسئلہ نہیں ہے ۔
بشکریہ نواےؑ وقت