سپریم کورٹ نے نجی اسکولز کی فیس میں 20 فیصد کمی سے متعلق گذشتہ تمام فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نجی تدریسی اداروں کو پنجاب اور سندھ کے فیس ڈھانچے 2017 کی بنیاد پر فیس تعین کرنے کا حکم دے دیا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ پرائیوٹ اسکول پنجاب پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ایکٹ 2017 اور سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن رولز 2005 کے تحت فیس کا تعین کریں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے نجی اسکولز کی فیس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کی جبکہ جسٹس اعجاز الحسن نے فیصلے کا بڑا حصہ تحریر کیا تاہم جسٹس فیصل عرب نے فیصلے پر اختلاف کیا۔
جاری مختصر فیصلے کے مطابق مختلف نجی اسکولز کی جانب سے عبوری حکم کی نظر ثانی اپیلوں کو مسترد کیا گیا۔
فیصلے میں ہدایت کی گئی کہ نجی اسکولز عبوری حکم پر فیس میں کمی کے واجبات وصول نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ 13 دسمبر 2018 کو عبوری حکم کے تحت فیس میں 20 فیصد کمی کردی گئی تھی۔
پنجاب قوانین کے مطابق فیس میں سالانہ زیادہ سے زیادہ 8 فیصد جبکہ سندھ کے قانون کی رو سے ٹیوشن فیس میں سالانہ 5 فیصد تک کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے والدین نے عدالت عظمیٰ میں فیس میں اضافے کو چینلج نہیں کیا تھا بلکہ وہ نجی اسکولز کی جانب سے وفقے وفقے سے فیس میں اضافے پر پریشان تھے۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری اسکولز میں تعلیمی معیار نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں نجی اسکولز کھلے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اعداد وشمار کے مطابق نجی اسکولز کے 50 فیصد سے بچے زیر تعلیم ہیں جو سرکاری اسکولز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے‘۔
انہوں نے اختلافی نوٹ میں مزید کہا کہ ’متوسط اور نیم متوسط طبقے کے لیے بچوں کو نجی اسکولز میں تعلیم دلانا ان کے بجٹ سے باہر ہوتا جارہا ہے‘۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ’حکومت سرکاری سطح پر تعلیمی نظام چلانے میں ناکام ہوچکی ہے‘۔