تحریر: حامد قاضی
ہمارے ملک پاکستان میں تعلیم کا جو حال ہے اور جو تعلیم کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے جو اس اہم ترین شعبے میں ستم ظریفیاں برتی جارہی ہیں وہ ناقابلِ حد تک قابلِ افسوس اور قابلِ مزمت ہیں ۔ یعنی تعلیم کو ایک شوق نہیں بلکہ ایک بوجھ بنا دیا گیا ہے طالبعلم سکول نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس کو سکول جانے کا شوق نہیں ہے اور شوق ذوق سے پیدا ہوتا ہے اور ذوق دلچسپی سے اور دلچسپی ماحول سے پیدا ہوتی ہے اور جو ہمارے تعلیمی اداروں کا ماحول ہے وہ ماحول کم اور ماخول (مذاق)زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ الامان الحفیظ ایسا لگتا ہے جیسے آپ سکول میں نہیں کسی بھوت بنگلہ یا گائے بھینسوں کے باڑے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔
سرکاری سکولوں کے لئے لاکھوں کے بجٹ اور فنڈز ہونے کے باوجود یہ ان تعلیمی اداروں کے حالتِ زار بہتر کرنے کی بجائے بیوروکریسی اور نوکر کریسی کی ذاتی حالتیں بہتر کرنے میں لگا دیا جاتا ہے ۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں تفصیل کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالی تھی اللہ کرے کہ اربابِ اختیار ہوش کے ناخن لے لیں اور مانیٹرنگ کا ایک ایسا نظام وضع کریں جو اس ملک اور قوم کی حالت بدلنے میں معاون ثابت ہو۔میرا اصل موضوع آج سرکاری سکول نہیں بلکہ پرائیویٹ سکول ہیں جو کہ اس بھولی بھٹکی قوم میں تھوڑا بہت شعور اجا گر کرنے کا فریضہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اور ہمارے لولے لنگڑے تعلیمی ڈھانچے کو سہارا دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ اور اگر کوئی تھوڑا بہت اقوامِ عالم میں ہمارا مقام ہے تو وہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ہی بدولت ہے ۔ تعلیم کی افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے کیونکہ علم حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے اور علم ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا گیا ہے ۔اور علم کو آگے پہنچانا نبیوں کی صفت میں سے ہے۔
اتنی تمحید باندھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں جو ہوشربا مہنگائی ،اور بیروزگاری کا عالم ہے لوگوں کے پاس کھانے اور سر ڈھانپنے کے لئے بڑی مشکل سے گذر اوقات ہوتی ہے اگر سر ڈھانپتے ہیں تو پائوں ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پائوں ڈھانپتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے صرف ایک سفید پوشی کا بھرم قائم ہے۔
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا لختِ جگر کسی اچھے سکول میں پڑھے تاکہ اس کو اچھا روزگار ملے اور ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو پیٹ پر پتھر باندھ کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں گھر کے اخراجات ہی پورے کرنے مشکل ہوجاتے ہیں کہ سکول کی فیسیں ، امتحانی اخراجات، سکولوں کے فنگشنز، کتابیں ،یونیفارم،جوتے ،ٹیوشن کی فیسیں ،سکول وین یا رکشہ کے کرائے وغیرہ وغیرہ والدین کی مت مار دیتے ہیں اور انکم انتہائی محدود ہوتی ہے اور جس گھر میں تین سے چار بچے سکول جانے والے ہوں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محدود آمدنی والے گھرانے روکھی سوکھی کھا کر ہی پیٹ بھرتے ہوں گے ۔ اور سب سے بڑا مسئلہ جس کے لئے آج آپ سے درخواست کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں وہ ہے گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں کے دوران سکول فیس ادا کرنا کہاں کا انصاف ہے جبکہ سکول بند ہوتے ہیں۔
حالانکہ یہ سکول کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ نو ماہ جو آمدنی کرتا ہے اس میں سے اساتذہ کو تنخواہیں ادا کرے اور بیچارے والدین کو بھی سال میں تین ماہ کے لئے سکون نصیب ہو اور وہ تین ماہ کی فیس بچا کر بچوں کو کوئی سیرو تفریح وغیرہ کروا سکیں تاکہ جب بچے تین ماہ کی چھٹیوں کے بعد سکول آئیں تو یکسوئی کے ساتھ اپنی تعلیم لیں اور ان میں دوسرے بچوں کی چھٹیوں کے دوران سیرو تفریح کی باتیں سن کر کسی قسم کا احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ اچھی تعلیم اور سستی تعلیم اس قوم کا مستقبل سنوار سکتی ہے۔
جنابِ صدر! ہم پاکستان کے تمام سکولوں کے طلباء کے والدین آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ ہماری اس درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جائے۔ آپکے بچے تو باہر کے ملکوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہونگے مگر ہم سفید پوش لوگ ہیں ہم دکھیاروں نے اسی ملک میں پڑھنا رہنا اور مرنا ہے یہ بچے ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہیں تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر یہ ہمارا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ خدارا اس ملک پر اور عوام پر رحم کریں۔آپکی بہت مہربانی ہو گی۔
تحریر: حامد قاضی
ممبر :کالمسٹ کونسل آف پاکستانC.C.P
ای میل: hamidqazi47@gmail.com موبائل: 0323-4362624