counter easy hit

ملک سے باہر سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟

ممتازملک ۔ پیرس
کافی دنوں سے ہم یہ مطالعہ کر رہے تھے کہ کن کن ممالک کی سیاسی جماعتیں کس کس ملک میں کام کر رہی ہیں تو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس کی سیاسی جماعت کسی اور ملک میں ونگز بنائے عوام کو بانٹنے میں مصروف ہو ۔ ویسے تو کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ بھی ہمارے ہاں فخریہ پیکش کے طور پر کیا جاتا ہے ، تو یہ کون سا ایسا مشکل کام ہے کہ جو نہیں ہو سکتا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تو ان سیاسی جماعتوں کا وجود پاکستان سے باہر قائم کر کے ہم پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کو کوئی اچھا پیغام دے رہے ہیں یا کوئی بھلائی کا کام کر رہے ہیں تو پھر تو واقعی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن معاملہ اس کے بلکل برعکس ہے پاکستانیوں کو پہلے ہی اس بات کی عادت بھی ہے اور شوق بھی کہ کب ،کہاں، کسے گرا کر آگے بڑھا جائے اور کہاں کس کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنے قد کو اونچا کیا جائے وہاں یہ جماعتیں اپنے اپنے قد کو اونچا کلرنے کے سوا کسی کام کی نظر نہیں آتی ہیں ۔ نہ ہی ان کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی میں کوئی اتحاد پیدا ہو رہا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو انتشار مزید بڑھتا جا رہے ۔ اب تو حال یہ ہورھا ہے کہ گھر میں آئے ہوئے سمدھیوں سے بھی اس بات پر منہ ماری شروع ہو چکی ہے کہ ایک کہتا ہے میری پارٹی اچھا کام کرتی ہے اور دوسرا اپنے قائد کو قائد اعظم ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہوتا ہے ۔ آئے ہوئے اچھے بھلے رشتے اس لیئے مسترد کیئے جا رہے ہیں کہ دونوں گھرانوں کے سیاسی عقائد نہیں ملتے ۔ خاص طور پر ان گھرانوں کے مردوں کو ان سیاسی پارٹیز کے نام پر اگر بڑھکیں مارنے کا شوق ہے تو سمجھ لیں کہ اب وہ اپنے بچوں کے ہی دشمن بن جائیں گے اور انہیں کہیں بھی دوسرے خاندان میں شامل ہونے کے لیئے آسان راستہ مہیا نہیں کریگا یہ بات اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب لڑکی کے والد یا بھائی ڈائیریکٹ پارٹی بازی میں ملوث ہوں ۔ گھروں میں جھانکیں تو میاں بیوی میں بھی پارٹی کے نام پر جھگڑے بڑھتے بڑھتے بے سکونی کی اور کہیں تو طلاق کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ ہم ملک سے باہر روزی کی تلاش میں اور پاکستان کا نام عزت دار ملکوں کی فہرست میں ڈالنے کے لئیے نکلے تھے اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں اور کاروباری میدان میں بلکہ اخلاقی میدان میں بھی ایک بلند معیار اپنائیں۔ جس کے لیئے اگر ضروری ہے تو ہم یہاں کی مقامی سیاست پر نظر رکھ کر اور شمولیت کر کے اپنی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں متعلقین تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ لیکن افسوس ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں اس میں بے تکی چھلانگ لگا دیتے ہیں ۔ نہ اس کے لیئے کوئی تربیت حاصل کرتے ہیں نہ ہی کوئی ہوم ورک کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے لیئے ہی کسی نے کہا ہے کہ
کمال ڈریور نہ انجن کی خوبی
خدا کے سہارے چلی جاری ہے
تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے مسائل کو پاکستان میں رہنے والوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے کہ وہاں جن مسائل سے وہ دوچار ہیں وہی اس بات کا بہترین ادراک رکھتے ہیں کہ اسے کیسے حل کیا جائے ۔ ہم یہاں دور بیٹھ کے عالمی تناظر میں کوئی اچھا مشورہ تو دے سکتے ہیں ، مالی مدد بھی کر سکتے ہیں ، لیکن یہاں انہی پارٹیز کے بت بنا کر انہیں پر آئے دن نت نئی لڑائیاں شروع کر کے انہیں کے لیڈران کے نام پر ایک دوسرے کی بات کو برداشت کیئے بنا محاذ کھول کر ہم اپنی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ ہر آدمی اپنے اپ کو دنیا کا مصوم ترین انسان سمجھتا ہے اور اپنی پارٹی لیڈر کو دودھ سے دھلا ہوا ۔ قوت برداشت زیرو رکھنے والی قوم کو پہلے اپنے اخلاقی معیار بہتر بنانے پر پورا زور صرف کرنا چاہیئے اس کے بعد ہی ہم کسی پارٹی کے لیئے آواز اٹھائیں تو ہی مناسب ہو گا ۔ اور اپنے لیڈران کے بت کے بجائے اگر ہم انہیں بھی ایک عام انسان ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے ان کے کردار اور قول و فعل پر بھی کڑی نظر رکھنے کا اصول اپنا لیں تو دیکھیئے گا نہ تو کوئی سوئیس بینک بھرنے کی جرات کریگا نہ ہی کسی کو جہاز اسے سودے بازی کر کے بھاگنے کے لیئے اڑان بھرنے کی اجازت دیگا نہ تو کوئی اخلاقی کمزوریوں پر اترائے گا اور نہ کوئی مذہب کا نام لیکر حلوے بانٹنے اور تھال چاٹنے کا کام کرے گا ۔

(نوٹ ۔ یہ تحریر کسی بھی خاص فرد کو نشانہ بنا کر نہیں لکھی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد صرف بیرون ملک پاکستانیوں کی آپسی رنجشوں کو بڑھانے والے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالنا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کسی کی دلآزاری ہوئی ہو تو پیشگی معزرت چاہتی ہوں ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔