تحریر : عماد ظفر
وزیراعظم پاکستان نواز شریف کا دل کا آپریشن کامیاب ہوا اور اب وہ تیزی سے شفایاب ہو رہے ہیں.قریب پانچ گھنٹے پر محیط اس آپریشن کے دوران ہمارے معاشرے میں چھائی نفرتوں حسد اور شک و شبہ کی گھٹائیں بہت واضح دکھائی دیں.ایک جانب مسلم لیگ نون کے کارکن اور ہمدرد وزیراعظم کی صحتیابی اور آپریشن کی کامیابی کیلئے دعائیں مانگتے دکھائی دیئے تو دوسری جانب جناب عمران خان اور اکا دکا دیگر جماعتوں کے ہمدرد مبہم.الفاظ میں اس آپریشن کو ایک ٹوپی ڈرامہ قرار دیتے دکھائی دیئے. ٹی وی پر بیٹھے بوٹ پالشیے اور حوالدار تجزیہ نگار دوران آپریشن قوم کو یہ بتانے میں مصروف رہے کہ اول تو یہ آپریشن ہی جھوٹا ہے اور اگر یہ آپریشن ہو رہا ہے تو وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا جائے کہ ملک وزیر اعظم کے بنا نہیں چل سکتا۔
یوں دوران آپریشن ایک طرح سے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ سرجری ایک ڈرامہ ہے محض ہمدردیاں سمیٹنے کا. یا یہ ایک نادر موقع ہے نواز شریف کو میڈیکل گراونڈ کی بنا پر نااہل قرار دینے کا.اور آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے بنا تحقیق کے ان الیکٹرانک جوکروں کی بات پر ایمان لاتے ہوئے اسے حرف آخر جان کر آج کے دن بھی نواز شریف کو برا بھلا کہا. اب ایسے حضرات سے کوئی کیا گلہ کرے جو روز ایک صاحب کی قیامت کی پیشن گوئیوں کا پروگرام سن کر قیامت کا سامان باندھے انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ قیامت اب آئی کہ اب. یا پھر مارشل لا کی آمد کا ہر لمحے انتظار کرتے پائے جاتے ہیں۔
نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور کم سے کم ایسے نازک موڑ پر جہاں صحت کے حوالے سے ان کی زندگی موت کا مسئلہ تھا وہاں چند عناصر نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ صحافت اور سیاست کا ثبوت دیا. ہمارے معاشرے میں نفرتیں بانٹنا اور جھوٹ و پراپیگینڈہ کو بیچنا کتنا آسان کام ہے اس کا اندازہ نجوبی نفرتوں کا بیوپار کرتے چند صحافی، اینکرز اور سیاستدانوں کو دیکھ کر ہو جاتا ہے. جس قدر بھونڈے الزامات اور افواہیں یہ لوگ اپنے اپنے ٹاک شوز تجزیوں اور اپنی سیاسی میڈیا ٹیم کے زریعے پھیلا رہے تھے ان کو دیکھ اور سن کر ندامت ہو رہی تھی کی بطور معاشرہ اور من ہذالا قوم ہمارا معیار کس قدر گر چکا ہے۔
ایک صاحب جو فلمی دنیا میں ناکامی کے بعد صحافت کا لبادہ اوڑھ کر چند برسوںِ میں موٹر سائیکل سے جہاز تک جا پہنچے انہوں نے تو آپریشن کو جعلی قرار دے دیا. اور اس قدر بازاری زبان میں اس سرجری کا موازنہ خواتین کی سیکیوریٹی والے آپریشن سے کیا کہ ان کی پست ذہنیت ور سوچ پر ترس آنے لگا. اسی طرح چند دیگر صاحبان کا اصرار تھا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ دل کا آپریشن ہے اور نواز شریف صرف چند گھنٹے پہلے ہسپتال میں داخل ہوئے اور اس سے قبل اپنی فیملی کے ساتھ لنچ اور ڈنر کرتے پائے گئے. گویا ان حضرات کی منطق کے مطابق نواز شریف کو ایک ہفتہ قبل ہسپتال میں لیٹ جانا چائیے تھا کھانا پینا چھوڑ کر بس دل پر ہاتھ رکھ کر ہائے میں مر گیا کی آوازیں لگانی چائیے تھیں. ان بھونڈے اعتراضات اور اس پر مخصوص سیاسی جماعت کے انقلابیوں کا رد عمل اس امر کا ثبوت تھا کہ ہم محض پوائنٹ سکورنگ اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
مزید برآں ہم پیرانویا کا شکار ہیں اور ہر چیز پر شک کرتے ہوئے خود ساختہ سازشی تھیوریاں گھڑ کر اپنی فرضی اور من پسند دنیا میں رینا پسند کرتے ہیں. ملالہ یوسف زئی کو گولیاں لگنا ہم مانتے ہی نہیں اور مان لیں تو اسے یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں. بی بی کی شہادت ہمارے نزدیک آصف زرداری کی وجہ سے ہوئی یا بیرونی سازشوں کے. اسی طرح شرمین عبید چنائے نے ہمارے نزدیک جھوٹ ہر مبنی ڈاکیومینٹری بنائی اور کفار سے پیسے لیکر ہمیں بدنام کیا. طالبان ہمارے بھائی ہیں اور ان کا نام لے کر کفار ہم پر خود کش حملے کرتے ہیں. عمران خان کی تمام طلاقوں کا ذمہ دار نواز شریف ہے اور دل کا آپریشن ایک بہانہ ہے۔
یہ احمقانہ سوچ اور شک و شبہ کی مسلسل کیفیت میں رہنا ان لوگوں کی پہچان ہے جو ہولسینیشن یا پیرانویا میں مبتلا رہتے ہیں. اسی طرح یہ اعتراض کہ پاکستان میں بھی یہ آپریشن ہو سکتا تھا انتہائی بھونڈا اور بدنیتی پر مبنی تھا. انگلستان ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے حوالے سے دل سے متعلقہ آپریشن کرنے میں دنیا میں چند بہترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور ٍغالبا ہر وہ شخص جو بیرون ملک علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرتا ہے اس کی پہلی ترجیح بیرون ملک علاج ہوتی ہے. خیر نواز شریف اس بیماری سے نبرد آزما ہو کر کامیابی سے پھر واپسی کی تیاریوں میں ہیں اور یہ ان کے سیاسی و پس پشت مخالفین کے لیئے اچھی خبر نہیں ہے۔
کیونکہ سیاسی میدان میں انہیں چت کرنے کی کوششوں کے رایگاں ہونے کے بعد پس پشت قوتوں کی کوشش تھی کہ کسی بھی طرح یا تو ان کے خاندان میں پھوٹ ڈلوا کر ایک فاروڈ بلاک بنایا جائے یا شہباز شریف کو للچایا جائے کہ وہ وزارت عظمی سنبھالیں کہ نواز شریف کی صحت اب ٹھیک نہیں.لیکن ان تمام امیدوں پر پانی تب پھرا جب نواز شریف کے آپریشن سے پہلے کے بیان اور پھر ان کی صاحبزادی مریم کے بقول نواز شریف واپس آ کر ایک بار پھر مخالفین کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں گے اور ملک کے کونے کونے میں جلسوں کا سلسلہ وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا . دوسری جانب شہباز شریف نے یہ بیان دیکر کہ نواز شریف صرف بڑے بھائی نہیں بلکہ قالج کی طرح ہیں مسلم لیگ یا شریف خاندان میں پھوٹ کی تمام افواہوں کا گلا گھونٹ دیا. نواز شریف اب صحت یاب ہو کر کس طریقے سے پس پشت قوتوں کے بنے هوئے جال کو توڑ پاتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے.لیکن ایک بات تو طے پے کہ قسمت کی دیسی نواز شریف پر مہربان ہے۔
وگرنہ اپنے دور اقتدار کے ان تین سالوں میں جس طرح کے بحرانوں اور سازشوں کا سامنا نواز شریف نے کامیابی کے ساتھ کیا شاید ہی اس کی کوئی اور مثال ہمارے وطن میں موجود ہو.اور اب دل کے اس موذی مرض کو بھی شکست دینے کے برف یقینا ان کا اعتماد اور حوصلہ پہلے سے زیادہ بلند ہو گا. ایک صاحب جو وزیر اعظم کی شیروانی پہننے کے ارمان میں وطن عزیز میں مدتوں کے بیج بوئے ہی چلے جا رہیں ہیں اب انہیں تھوڑی سی رواداری اور ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کی عیادت کو چلے جانا چاھیے. کیونکہ سیاسی رنجش اپنی جگہ لیکن نواز شریف نے ان صاحب کے سر پر چوٹ لگنے کے بعد نہ صرف اپنی انتخابی سرگرمیاں روک دیں تھیں بلکہ ان کی عیادت کرنے ہسپتال بھی گئے تھے. اب دیکھتے ہیں کہ وزارت عظمی کی کرسی کا خواب سجائے ان صاحب کا ظرف کتنا بلند ہے۔
دوسری جانب آپ نواز شریف سے اختلاف کریں یاانہیں ناپسند کریں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اس وقت پاکستان میں نواز شریف کے علاوہ کوئی اور عالمی پائے کا قومی رہنما موجود نہیں ہے. اور کرپشن کے لاتعداد الزامات لگنے کے باوجود اور منفی پراپیگینڈہ کے حملوں کے زیر عتاب رہنے کے باوجود نواز شریف نے اپنی مقبولیت نہیں کھوئی. پنجاب جو ان کا ووٹ بنک ہے آج بھی نواز شریف کی انتخابی سیاست کا قلعہ پے اور پانامہ لیکس کے سکینڈل کے باوجود نواز شریف کے ووٹرز ان کے ساتھ موجود ہیں۔
لوکل باڈی انتخابات سے لیکر ضمنی انتخابات کے میدان میں نواز شریف کی جماعت مسلسل فتح کے جھنڈے گاڑتی 2018 کے انتخابات جیتنے پر اپنی توجہ مرکوز لیئے بیٹھی ہے. اپوزیشن کی احمقانہ پالیسیوں کی بدولت نواز شریف اگلے عام انتخابات کی مہم ابھی سے ہی بھرپور طریقے سے چلا رہے ہیں.پس پشت قوتوں کی چالوں عمران خان کی مسلسل جھوٹ پر مبنی جلسوں کی اور میڈیا کی کمپین اور اب پیپلز پارٹی کا واویلا نواز شریف کو آصف زرداری کی طرح کمزور نہیں کر سکا. کیونکہ نواز شریف نے اپنے سیاسی پتے مہارت سے کھیلے ہیں جہاں بیک فٹ پر جانا پڑا بیک فٹ پر چلے گئے اور جہاں فرنٹ فٹ پر کھیلنا تھا وہاں قدموں کا استعمال بھی خوب کیا۔
نواز شریف کی شکل کو ناپسند کرنے والوں کو مشورہ یہی ہے کہ لیڈر شکل سے نہیں عقل سے پہچانا جاتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے .بصورت دیگر اچھی اچھی شکلوں والے سیاسی بصیرت نہ رکھنے کے باعث سڑکوں پر دھرنے دیتے دیتے خوار ہو جاتے ہیں۔
نواز شریف ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور اس کریٹیکل سرجری کے کامیاب ہونے کے بعد انہیں نیک تمنائیں اور آل دی بیسٹ پرائم منسٹر. حوالدار اینکرز اور بوٹ پالشیے اور مالشی تجزیہ نگاروں کو یہ پیغام کہ مالش اور پالش کر کے اپنا بنک بیلنس بڑھا کر قوم کا اخلاقی اور انسانی ہمدردی کا بنک بیلنس زیرو کرنے کے بجائے محنت کریں نا کہ حسد. سیاست کی رمز نواز شریف نے اٹک جیل اور جلاوطنی کے دوران سیکھی تھی نا کہ کنٹینروں پر بھاشن دے کر یا ایسٹیبلیشمنٹ کے کندھوں پر چڑھ کر۔
تحریر : عماد ظفر