اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی زمہ داریاں آئین کے مطابق ادا کرنی چاہئیں اور ججز کو ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔
نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر از خود نوٹس لیے گئے، گزشتہ ایک سال کے دوران انسانی حقوق سیل کے ذریعے 29 ہزار 657 شکایات کو نمٹایا گیا، ججز نے چھٹیوں کا بیشتر وقت بھی کام میں گزارا، چھٹیاں قربان کرنے کے باوجود زیرالتواء کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا، 31اگست 2016 کو زیر التواء مقدمات کی تعداد 30 ہزار 871 تھی، ایک سال کے دوران 13 ہزار 667 مقدمات نمٹائے گئے لیکن اس دوران لاہور رجسٹری میں 5 ہزار 611 ، کراچی میں ایک ہزار 292، پشاور رجسٹری میں 595 جب کہ کوئٹہ میں 518 نئے مقدمات دائر ہوئے، 31 اگست 2017 تک زیرالتواء مقدمات کی تعداد 36 ہزار 692 ہوگئی۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انصاف کا مقصد آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے لہذا انصاف کے لیے ضروری ہے جمہوریت کا تحفظ اور بچاؤ کیا جائے، فراہمی انصاف کے لئے باراوربینچ کومتحد ہونا ہوگا۔ آئین سب سے بالاتر ہے، عدلیہ انصاف فراہم ، بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے، ججز کو ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی ذمہ داریاں آئین کے مطابق ادا کرنی چاہئیں،کوئی اتھارٹی یا ریاستی ادارہ آئین کے خلاف کام کرے تو عدلیہ کو جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے، ناانصافی سے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور قوموں کو ناانصافی افراتفری اور انارکی کی طرف لے جاتی ہے۔