لاہور (ویب ڈیسک) کابینہ اجلاس شروع ہونے کو تھا۔ وزیراعلی شہبازشریف کے منتظر وزراء سردار ذوالفقارعلی خان کھوسہ صاحب کے ساتھ افسرشاہی سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال میں محو تھے۔ وزیراعلی صاحب آئے تو سردار صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے وزراء آپ سے علیحدگی میں ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ نامور شخصیت چوہدری عبدالغفور خان اپنے ایک خصوصی کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیراعلی نے 180 ایچ ماڈل ٹائون پر ملاقات کا وقت دے دیا۔ ملاقات کے آغاز میں ہی وزیراعلی مخاطب ہوئے کہ سردار صاحب کیا معاملات ہیں؟ سردار صاحب کے سامنے شکایات کے انبار لگانے والے وزراء کے جیسے ہونٹ ہی سل گئے تھے۔ سردار صاحب نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ پہلے چوہدری عبدالغفور بات کریں گے۔ وزیراعلی نے کہاکہ چوہدری صاحب !کیا شکایت ہے آپ کو؟ میں نے کہاکہ وزیراعلی صاحب میری شکایت نہیں بلکہ ایک درخواست ہے۔عرض کی کہ ’جمہوری حکومت میں بالادستی بھی جمہوری قوتوں کی ہوتی ہے لیکن اس وقت افسرشاہی حاوی اور برتر ہے۔ یہ جمہوری روایات کے بالکل برعکس ہے۔ میری دانست میں پاکستان کی بربادی کی اصل وجہ مالیاتی بدعنوانی نہیں بلکہ دانشورانہ بدعنوانی ہے۔ شاید میں یہ بھول گیا تھا کہ جمہوریت اور ’کنٹرولڈ ڈیموکریسی‘ میں بہت فرق ہے ۔ یہاں بدقسمتی سے جہموریت نہیں بلکہ جکڑی ہوئی جمہوریت ہے۔ جو آمریت ہی کی ایک حسین اور خوبصورت شکل ہے۔بات جاری رکھتے ہوئے میں نے کہاکہ ’اللہ کریم کا خوبصورت شاہکار حضرت انسان کی تخلیق خطاء کی بنیاد پر ہے۔ غلطی سرزد نہ ہو توہم فرشتے بن جائیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں اُن پر اصرار سے تباہ ہوتی آئی ہیں۔ جب ’چین آف کمانڈ‘ ٹوٹ جاتی ہے تو پھر بربادی کوروکا نہیں جا سکتا۔ امور مملکت حکمرانوں کے بچوں کے سپرد ہوجائیں اور وہ زیر تربیت وزیراعظم اور وزیراعلی کے طورپر کام کرنے لگیں، بیوروکریسی کو حکم جاری کریں اور ان کی تعمیل افسرشاہی پر لازم ہوجائے، لیت ولعل پر انہیں ’سائڈ لائن‘ کردیاجائے اور سینئرز کو نظرانداز کرتے ہوئے ’موسٹ جونئیر افسران‘ کو اعلی ترین عہدوں پر تعینات کردیاجائے، وہ ذاتی ملازمین کی طرح احکامات بجالائیں، ریاست کو حکومت کے تابع کردیاجائے اور بادشاہت کا گمان ہونے لگے، قابلیت اور اہلیت کو خوشامد کی بنیاد پر پرکھا جانے لگے، سیاسی قوتوں کو بے حیثیت کردیا جائے۔۔۔ تو پھر تباہی و بربادی مقدر ہوکر رہتی ہے۔ ‘ یہ بھی کہاکہ ’وزیراعظم اور وزیراعلی کے طورپر دنیا سے تعلقات استوارکرنے کی بنیاد ریاست و حکومت کے برعکس ذاتی تعلق بنانا ہو، غیرملکی دوروں کے موقع پر وزیراعظم کے جہاز میں وزیراعظم اور وزیراعلی کے بچے ان کے ہمرکاب ہوں تو پھر نظام نہیں چل سکتے۔۔۔ تاریخ کا سبق تو یہ ہے کہ خلیفہ المسلمین حضرت ابوبکر صدیقؓ امارت کی ذمہ داری کے امین ہوئے تو گزر بسر کا واحد ذریعہ کپڑے کا کاروبار بند فرمادیا تھا۔ ایسی مقدس ہستیوں کا موازنہ کسی اور سے کیا کریں لیکن آج کے زمانے میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ہمیں اسی اصول کی پاسداری اور پیروی کا درس دیتی ہیں۔ ملائیشیاء کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو قوم کی وزارت عظمی کی امانت سونپی گئی تو شرط لگادی کہ کابینہ میں کوئی ایسا فرد شامل نہیں ہوگا جس کا سرمایہ ملک سے باہر ہوگا۔ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیراعظم اور ’آئرن لیڈی‘ کے لقب سے شہرت پانے والی آنجہانی مارگریٹ تھیچر سے یہ واقعہ منسوب ہے کہ انہوں نے اپنی وزارت عظمی کے دوران اپنے بیٹے کو کاروبار سے منع کردیا تھا۔ افسوس کہ یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکمران ہمارے ہیں لیکن بچے اور کاروبار سب ملک سے باہر۔۔۔‘ سابقہ حکمرانوں کی غلطیاں بدقسمتی سے ایک بار پھر دہرائی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شاید عمران خان پاکستان کی آخری امید ہیں جو وزیراعظم نہیں بلکہ ایک ’سٹیٹس مین‘ کی طرح کام کررہے ہیں۔ وہ عوام کا درد بھی رکھتے ہیں لیکن خلاف توقع کچھ فیصلے درست ثابت نہیں ہورہے۔ ایک بے چینی کی فضاء ہے۔ اچھی ٹیم کا فقدان ہے۔ شہبازشریف کا نعم البدل شاید بزدار نہیں ہوسکتا۔ بزدار صاحب کی شرافت پر ہم انگلی نہیں اٹھارہے۔ ان کے والد محترم، اللہ کریم ان کی مغٖفرت فرمائے، میرے ساتھ پنجاب اسمبلی میں رہے۔ وہ انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ مودبانہ عرض یہ ہے کہ رشتے ناطوں (اوبلیگیشن) سے امور مملکت وریاست کی نگہبانی نہیں ہوا کرتی۔ پاکستان مزید کسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک غیرمنتخب شخص کو اختیارات دے دینا شاید نامناسب ہے۔ پاکستان پر ناکام حملہ کرانے کی حماقت بھارتی وزیراعظم مودی کے اُلٹا گلے پڑ گئی ہے مگر اس کا فائدہ ہمارے حکمرانوں کو ہوا۔ ہماری کامیاب خارجہ پالیسی پوری دنیا میں مانی گئی ہے۔ اس کا سہرا یقینا جناب وزیراعظم، وزیرخارجہ اور افواج پاکستان کے سر ہے۔ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کا ایک طوفان ہے۔ پاکستان کی اولین ضرورت اس وقت ایک ماہر معاشیات کی دستیابی ہے۔ روپیہ روز بروز اپنی قدر تیزی سے کھورہا ہے۔ دیگر اقتصادی اعشارئیے مثبت رجحان نہیں دکھا رہے لیکن دوسری جانب حکمران جماعت کے اندر گروہ بندی کا تاثر گہرا ہورہا ہے۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ قابل لوگ باہم دست وگریبان کیوں ہیں؟کیا یہ شخصیات پاکستان کے لئے اپنی ذاتی انا کی قربانی نہیں دے سکتیں؟ عرض کروں گا کہ وزیراعظم صاحب ! پاکستان میں دال روٹی مہنگی نہ ہونے دیں۔۔۔ چاہے اس کے لئے کچھ بھی قیمت ادا کرنا پڑے اور کیسے ہی اقدامات کیوں نہ کرنے پڑیں۔ ایک دفعہ نظرثانی فرمائیں، جائزہ لیں کہ کون لوگ کام نہیں کررہے؟ یہ نظرثانی ضروری ہے۔ ذمہ داری کا تعین صلاحیت کے مطابق کیاجائے، درست منصب کے لئے درست شخص کا انتخاب بنیادی تقاضا ہے تاکہ اصلاح کی سبیل پیدا ہوسکے۔ ایک اور انتہائی اہم پہلو حکومت کی مناسب ’امیج بلڈنگ‘ بھی ہے۔ اب تک حکومت کا تعارف بننے والے افراد کی صلاحیت پر شک کئے بغیر اور ان پر طعنہ وتنقید کے تیر چلائے بغیر اس حقیقت کا جائزہ لینا ہوگا کہ حکومت کا مجموعی تاثر کیا قائم ہورہا ہے؟ شاید عوام میں حکومت کے امیج پر منفی اثر پڑرہا ہے۔ لوگوں میں بے چینی کی فضا ختم کرنے کے لئے بہترین اقدامات کئے جائیں۔ ان سے انشاء اللہ ہمارے ادارے مزید مضبوط ہوں گے۔ اس کے لئے جمہوری نظام کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ تیسری دنیا کو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ ہر حال میں جمہوری قوتوں اور افسرشاہی کو عوام کا ہی خادم ہونا چاہئے اور اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ پاکستان کی روح زخمی ہے۔ پاکستانی قوم انتہائی مشکل وقت سے گزری ہے۔ اب اس کے لئے آسانیاں پیدا کریں کہ بجلی اورگیس کے بل بجلی بن کر اُن پر نہ گریں۔ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں نہ بڑھیں۔ مہنگائی کے جن کو قابوکریں۔ قوم کو سکھ کا سانس تو آنے دیں۔ اللہ کریم نے پاکستان میں دو منفرد لیڈر پیدا کئے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے غریب کو عزت دی اور سیاسی نظام اور اس کے مرکزی دھارے میں اُسے لے کر آئے۔ دوسرے رہنما جناب عمران خان ہیں جنہوں نے اپنی کھال میں مست رہنے والی اشرافیہ کو بیدار کیا اور انہیں قومی جذبے سے ہمکنار کرکے اپنے آرام دہ گھروں سے باہر نکالا۔ بلاشبہ پاکستانی قوم کے بچے حضرت علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے لئے باہر نکلے تھے۔ عمران خان صاحب انہیں مایوس نہ ہونے دینا۔ قوم اپنی برداشت کو پہنچ چکی ہے۔ اس سے زیادہ ان کے صبر کا امتحان نہ لیاجائے۔ صبر کا امتحان لینا کبھی کبھی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ جناب وزیراعظم حکومتی ایوانوں میں گروہ بندی فوری ختم کرائیں۔ یقینی بنایا جائے کہ آپ کی ٹیم کا ہر فرد آپ کے وژن کے مطابق کام کرے۔ ہر روز پارٹی کے اندر نت نئی کہانیوں کو جنم نہیں لینا چاہئے کہ اب ایسے نہیں چلے گا۔ جمہوریت کے لئے شاید یہ آخری موقع ہے۔ وزیراعظم صاحب قدرت نے آپ کو کام کرنے کا پورا موقع عطا فرمایا ہے۔ اقتدار کے چند بھوکوں کے سوا پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ آج تک کی کارکردگی کوئی بہت زیادہ قابل تعریف نہیں ہے۔ نہ ہی مزید غلطیوں کی گنجائش ہے۔آپ کی پرخلوص نیت پر ہمیں چنداں شک نہیں ہے۔ You are the most competent and brave Prime Minister ۔ آپ کی اسلام اور پاکستان سے محبت پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا لیکن میرے دل و دماغ کے کسی حصے میں یہ خوف بہرحال موجود ہے کہ شاید ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کسی نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔ حضرت علی ؑ کا فرمان ہے جب راستہ خوبصورت ہو تو ضرور دیکھو کہ منزل کیا ہے لیکن جب منزل خوبصورت ہو تو کبھی نہ دیکھو کہ راستہ کیسا ہے۔ عمران خان صاحب قوم کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں تک اور تمام شہداء کا خون اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان پر اب کوئی بری نظر نہیں پڑنی چاہئے۔۔ مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے۔