counter easy hit

ماہ ربیع الاول کا پیغام

Allah

Allah

تحریر؛ ایم ابوبکر بلوچ شارجہ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب سے انسان کو اس دنیا میں آباد کیا ہے تب سے ہی انسانیت کی رہنمائی کیلئے انبیاء کرام کی شکل میں اپنے نیک بندوں کو اس دنیا میں بھیجا جنہوں نے انسانوں کوسیرت و کردار کے تعمیر کی دعوت دی اور اخلاق و اعمال کی درستگی کا سبق دیاان عظیم انسانوںمیں سب میں آخر میں وجہ کائنات نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ۖاس دنیا میں تشریف لائے آپکی آمد سے قبل کے زمانہ کو دور جاہلیت کا نام دیا جاتا ہے ۔حضرت محمد ۖدنیا کی تاریخ میں سب سے اہم ترین شخصیت کے طور پہ ظاہر ہوئے انکی یہ خصوصیت مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم لوگوں میں بھی تسلیم شدہ ہے آپ ۖتمام مذاہب کے پیشوائو ں سے کامیاب ترین پیشوا تھے کیونکہ آپ ۖ کو دونوں جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین شخصیات کا ذکر کیا ہے جنہوں میں دنیا کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیااس نے حضور ۖ کو سب سے پہلے شمار کیا ہے ۔تھامس کارلائیل نے 1840 ء کے مشہور لیکچرز میں کہا کہ ،، میں محمد ۖ سے محبت کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ انکی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شبہ تک نہ تھا،، ۔جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈرامہ نگار ،،گوئٹے،،حضور ۖ کا مداح اور عاشق تھا ،اپنی تخلیق،، دیوان مغربی،، میں گوئٹے نے حضور اقدس ۖ کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد ۖ کا اظہار کیا ہے اور انکے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں ۔

نبی پاک ۖ 12ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے اور بھی اقوال ہیں لیکن جمہور علماء 12 ربیع الاوال کو ہی آپ کا مولد قرار دیتے ہیں حالانکہ 8کا قول بھی ہے 9کابھی ہے اور 10کا بھی ہے لیکن پوری دنیا کے اکثر علماء 12 ربیع الاول ہی کو آپۖ کی پیدائش قرار دیتے ہیں۔پیر کی صبح 12 ربیع الاول ، 22اپریل 571عیسوی کو قبیلہ قریش اور سب سے اعلیٰ خاندان ہاشم میں آپ ۖ کی پیدائش ہوئی آپکی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے پاس اسوقت شففہ بنت اسودجو کہ بعد میں ایمان لائیں(یہ عبدالرحمان بن عوف کی والدہ)دایہ کے خدمات سر انجام دے رہی تھیں ۔آمنہ بنت وہب بنو زہرہ میں سے ہیں ۔جب آخرالزماں ۖ پیدا ہوئے سارا کمرہ خوشبو سے بھر گیا ۔آپکی دایہ حیران ہو کے دیکھ رہی ہیں کہ آپ ۖکے جسم مبارک پر پیدائش کے وقت کوئی نشان نہیں تھا عموماً جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ماں کے پیٹ سے انکے جسم پہ کچھ چیزیں لگی ہوتی ہیں لیکن آپ دھلے ہوئے صاف ستھرے باہر تشریف لائے ناف اور آنت ملی ہوتی ہے پھر اسکو کاٹا جاتا ہے آپکی ناف کٹی ہوئی تھی آپکا ختنہ ماں کے پیٹ سے ہوا ہوا تھا ۔دایہ یہ سب دیکھ کے حیران ہوئی اورحضرت آمنہ کوبھی دیکھایا پھر آپ کو ماں کے پہلو میں لیٹایاجونہی پیچھے ہٹیں تو آپۖ نے کروٹ بدلی پورے سجدے میں گئے

لمبا سجدہ کیا پھر اسکے بعد دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر پوری چھاتی اوپر اٹھائی اور الٹے ہاتھ کا سہارا لے کر سیدھا ہاتھ اٹھا کر شہادت کی انگلی کو آسمان کی طرف بلند کیا تو ایکدم چاروں طرف نور ہی نور پھیل گیااور حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ میںنے ایران اور شام کے محل دیکھے حضرت آمنہ نے بچے کو اٹھا کے گود میں لیا تو کمرے میں ایک دھند بھر گئی کہ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا دھند میں سے ایک آواز آئی ،، اس بچے کو مشرق ،مغرب شمال ،جنوب سب پھرا دوتاکہ کل کائنات جان لے انکی ذات کو انکے نام کو انکی صفات کو اور جان لے کہ یہی ہیں جن کے پیچھے چل کے منزل ملے گی ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں گے تو اللہ تک پہنچیں گے ورنہ بھٹک جائیں گے دنیا بھی برباد اور آخرت بھی برباد۔علماء کرام فرماتے ہیں ایک روایت میں ہے کہ اس دھند سے آواز آئی کہ انہیں آدم کے اخلاق دو،شیث کی معرفت دو،نوح کی معرفت دو،ابراہیم کی دوستی دو،اسماعیل کی قربانی دو،صالح کی فصاحت دو،لوط کی حکمت دو،اسحاق کی رضا دو،یعقوب کی بشارت دو،یوسف کا جمال دو،موسیٰ کا جلال دو،دائود کی شریں زبان دو،ایوب کا دل دو،یحییٰ کی پاکدامنی دو،عیسیٰ کا زہد دو،تمام نبیوںکے اخلاق اس بچے کو عطاء کئے یہ آواز آئی اور ایکدم بادل چھٹا۔حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا میرے بچے کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمک رہا تھا یہ آپکی آمد ہے ۔پورے آسمان پہ دھوم مچی ہوئی تھی ایک سمند ر کی مچھلیوں نے دوسرے سمندر کی مچھلیوں کو جا کے مبارک دے رہی تھیں

ساری دنیا کے بت زمین پہ گر گئے ایران کے لوگ آگ کی پوجا کرتے تھے تو ایک ہزار سال سے ایران میں آگ کے پجاریوں کا راج تھا ایک ہزار سال سے آگ مسلسل جل رہی تھی اس میں عود کی لکڑی ڈالی جاتی تھی اچانک یہ آگ بجھ گئی ایران کے بادشاہ نوشیروان نے محل بنایا تھاوہ اتنا مضبوط محل تھا کہ عباسی دور میں ابو جعفر منصور نے توڑنا چاہا تو توڑ نہیں سکا اسے اتنی مشکل پیش آئی ۔ایکدم اسکے چودہ بڑے بڑے برج دھڑم سے زمین پہ گر گئے ۔مکہ میں ایک یہودی تجارت کیلئے آیا ہوا تھا اس نے صبح شور مچایا کہ آج کسی قریشی کا بیٹا پیدا ہوا ہے تو کسی نے کہا ہاں فلاں کا بیٹا پیدا ہوا ہے تو اس نے پوچھا کیا اسکا باپ زندہ ہے جواب ملا ہاں زندہ ہے تو یہودی نے کہا نہیں کوئی ایسا بچہ بتائوجو یتیم پیدا ہوا ہو تو کہا عبدالمطلب کا پوتا تو یہودی نے کہا مجھے دیکھائوتو جب آپ ۖ کو لایاگیا آپۖ کے چہرے پہ نظر پڑی تو اس نے پیچھے کمر سے کپڑا ہٹا کے مہر نبوت کو دیکھا تو اسکی چیخ نکلی کہنے لگا آج ہلاک ہوگئے بنی اسرائیل،آج نبوت اسرائیل کی اولاد سے نکل گئی ۔

اے قریش تمھیں مبارک ہو یہ نبوت تمھارے گھر میں آگئی ۔ایران کا بادشاہ پریشان ہو گیا اسکے پجاری نے آکر کہا آگ بجھ گئی ،چودہ برج گر گئے ہیں تو اس نے ھیرا کے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ آسمانی کتابوں کا کوئی عالم بھیجوتو انہوں نے ہیرا کے پادری عیسائی عبدالمسیح کو بھیجا تو اس نے بات سنی اور کہا کہ میرا علم اتنا نہیں میرا ایک صطیح نامی ماموں شام میں رہتا ہے میں اس سے پوچھتا ہوں ۔وہ شام پہنچا تو وہ اس وقت نزع کی حالت میں تھے تو انہوں نے اسے ہلا کہ پوچھا صطیح میں آپکا بھانجا عبد المسیح آیا ہوں انکی آنکھ کھلی دیکھا اور عبدالمسیح کے کچھ بتائے بغیر فرمایا کہ تو یہ پوچھنے آیا ہے نا کہ ہزار سالہ آگ بجھ گئی اور وہ چودہ برج گر گئے تو کہا ہاں ہاں یہی پوچھنے آیا ہوں تو کہا اے عبدالمسیح ایران کے بادشاہ کو پیغام دے دے کہ آخری نبی ظاہر ہوچکے ہیںکہ جب قرآن کی تلاوت ہو گی صاحب عصا(لاٹھی والے)ظاہر ہونگے تو شام صطیح کا نہیں رہے گا فارس عبدالمسیح کا نہیں رہے گا اور اسکی امت ان تمام علاقوں پہ اللہ کے دین کا جھنڈا گھاڑیں گے یہ سب آپ ۖکی پیدائش پہ ہورہا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔عبدالمطلب ساری رات خانہ کعبہ میں دعا مانگتے رہے کہ اے اللہ میرا بیٹا چلا گیا ہے اسے بیٹا دے دے نشانی دے دے ۔

Rabi ul Awwal

Rabi ul Awwal

انہیں کیا پتہ کہ آج رات وجہ کائنات تشریف لا رہے ہیں اللہ پاکی محبوب ہستی آ رہی ہے جنکا نام اللہ پاک خود رکھیں گے( محمدۖ اور احمد)۔ 12 ربیع الاول انسانی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے اس دن کو شان و شوکت سے منانے کے ساتھ ساتھ ہم سب مسلمانوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی بھلائی کے طریقوں کو نبی اکرم ۖ کے اسوہ حسنہ کے مطابق گزارنا چاہیئے۔مسلمانوں کو اس دن کی اہمیت و فضیلت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کے اپنی گذشتہ خامیوں کو دور کرنا چاہئے اور آئندہ مثبت لائحہ عمل تیار کرکے انسانیت کے فلاح و بہبود کیلئے ایک نئے جوش جذبے کے ساتھ مصروف عمل ہو جانا چاہئے۔حضرت انس بن مالک حضور اکرم ۖ کے قریبی ساتھی اور وفا دار غلام تھے حضور ۖ کو انہون نے بہت قریب سے دیکھا تھا آپ ۖ کی سیرت مبارکہ کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کیا تھاان کا بیان ہے کہ میں نے پورے دس سال آپ ۖ کی خدمت کی آنحضرت ۖ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پہ یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔رشتہ داروں میں حضرت علی جو بچپن سے جوانی تک آپ ۖ کی خدمت میں رہے

،وہ فرماتے ہیں کہ آپ ۖ طبیعت کے نرم اور اخلاق کے نیک تھے طبیعت میں شفقت تھی سختی نہ فرماتے تھے کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے تھے بلکہ دوسروں کے دلوں پہ مرہم رکھتے تھے آپ ۖ رئوف ورحیم تھے(شمائل ترمذی)دوسری طرف قرآن کریم بھی آنحضرت ۖ کی سیرت مبارکہ کو نمونہ ء زندگی بنانے کی تلقین کرتا ہے کہ تمھارے لئے رسول اللہ ۖ کی زندگی بہترین نمونہ ہے مگر اس شخص جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور کثرت سے ذکر خدا کرتا ہے(سورہ احزاب) بلاشبہ آنحضور ۖ لوگوں میں سب سے زیادہ محاسن اخلاق کے حامل تھے ۔ نبی اکرم ۖ کی زندگی حسن و اخلاقیات کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے آپ ۖ نے زمانہ جہالت کے بگڑے معاشرہ کے افراد کو انسانیت کا عملبردار بنا کر پیش کیا آپ ۖ کی زندگی سب سے بڑا اصول یہ تھا کہ نیکی کو کوئی کام اور ثواب کا کوئی عمل آپ ۖ سب سے پہلے اس پہ خود عمل کرتے تھے آپ ۖ جب کسی بھی بات کا حکم دیتے تو سب سے پہلے خود اسکو کرنے والے ہوتے تھے لیکن افسوس آج کامسلمان سنت نبویۖ کوترک کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور اپنی کامیابی کا راز مغربی معاشرے میں تلاش کرتا ہے ۔ہم میں سے ہر دوسرا انسان سارا سال نبی پاک ۖ کی سنتوں کو پامال کرتا ہے

ہم گناہوں میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ ہمارے دلوں پہ سیاہ دھبے لگ چکے ہیں جسکی وجہ نبی اکرم ۖ کے اسوہ ء حسنہ سے دوری ہے ہمارے ضمیر صرف ماہ ربیع الاول میں جاگتے ہیں ہر شخص عشق مصطفیٰ میں سرشار نظر آتا ہے بازاروں گلیوں کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے ،یہ انداز محبت اپنی جگہ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے رب کے فرمانبردار ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ،، اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو،، اپنی ذات پر،اپنے معاشرے پر ،اپنے اردگرد کے ماحول پہ احتسابی نظر دوڑائی جائے ہم میں سے کتنے اطاعت گزار ہیں؟آپ ۖکی حیا ت طیبہ کے تمام پہلوئوں کی مثالیں موجود ہیں آپ ۖ کی زندگی امت مسلمہ کیلئے بہترین عملی نمونہ ہے اسوہء حسنہ پہ عمل کرنے سے ہماری دنیاو آخرت قابل رشک بن سکتی ہے ۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو ،آمین

Abubakar baloch

Abubakar baloch

تحریر؛ ایم ابوبکر بلوچ شارجہ