تحریر: راشد علی راشد اعوان
تکبر صرف اللہ ہی کے لیے ہے،عاجزی و انکساری کا درس دیکر اللہ ہی کی زمین پر اکڑ کر چلنے والوں کی اکڑی گردنوں پر حیرت ہوتی ہے کہ شاید انہیں آخرت کی فکر نہیں ہوتی ،اللہ تعالیٰ نے انسان کو دھڑکنے والا دل، سوچنے والا دماغ، سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا”پس اے دیدہِ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو”ہم لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے قلب اور ذہن گروی ہیں ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے جو حادثات اور سانھات رونما ہوتے ہیں،
محض اتفاقی امر ہے کیونکہ ہم نے غفلت اور دور اندیشی کی دور بینیں لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ سارے واقعات ہمیں عبرت اور نصیحت کی طرف توجہ دلاتے ہیں،ایک روز قبل ہونے والے زلزلے کے شدید جھٹکوں نے درو دیوار تو ہلائے ہی تھے مگر دل و دماغ بھی ٹھکانے لگا دیے،ادس سال قبل اسی طرح کے ہیبت ناک زلزلے نے بالاکوٹ جیسے خوبصورت شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا ڈالا تھا اور کتنے حسین چہرے جو بذات خود دنیا کا حسن تھے پہاڑوں کی چٹانوں کے نیچے دب گئے،ارشاد باری تعالیٰ ہے”لوگوں کے دل میری مٹھی میں ہیں، حکمرانوں کے دل بھی میری انگلیوں میں ہیں، اگر میری اطاعت نہیں کرو گے تو یہی حکمران تم پر ظلم کے ایسے ایسے حربے استعمال کریں گے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے،
اگر میری اطاعت کرو گے تو میں ان کے دل پھیر دوں گا تمہارے حق میں”حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی تو قوم نے ان کی نبوت و رسالت پر اعتراض کیا،سورہ ہود میں تفصیل سے حضرت نوح علیہ السلام کی وہ تقریر نقل کی گئی ہے جو انہوں نے اپنی قوم کے سب اعتراضات سننے کے بعد ان کو کچھ اصولی ہدایات دینے کے لئے ارشاد فرمائی کہ نبوت و رسالت کے لئے وہ چیزیں ضروری نہیں جو تم نے سمجھ رکھی ہیں،حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا کی اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے، قوم کی طرف سے سخت ایذائوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کی قوم ان پر پتھرائو کرتی یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا تو ان کے لئے دعا کرتے کہ یااللہ میری قوم کو معاف کردے جب اس عمل پر طویل صدیاں گزر گئیں تو ان طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ الفاظ آگئے،” اے میرے رب! میری مدد فرما کیونکہ انہوں نے تجھے جھٹلادیا ہے” ایک اورمقام پر حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی تھی”اے میرے پروردگار! ان نافرمانوں میں سے کوئی بھی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ”ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور پوری قوم طوفان نوح میں غرق کردی گئی، نوح علیہ السلام کے بیٹے کا انجام بھی برا ہوا،باپ نے بیٹے کو نصیحت کی مگر اس بدبخت نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر جان بچالوں گا اور پھر وہ بھی ڈوبنے والوں میں ہوگیا،نمرود نے کہا تھاکہ میں خدا ہوں یعنی میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا،متکبر بادشاہ تھا،
سرکشی بغاوت اور کفر شدید نخوت و غرور سے بھرا ہوا تھا، اسی چیز نے اسے خدائی کے دعویٰ پر آمادہ کیا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس نے چار سو سال تک حکومت اور بادشاہت کی تھی،اللہ تعالیٰ نے اس جابر بادشاہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا اس نے آکر اس کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا، دوبارہ دعوت دی پھر انکار کیا، پھر دعوت دی پھر انکار کیا پھر فرشتے نے کہا تو بھی اپنا لشکر جمع کر میں بھی کرتا ہوں چنانچہ نمرود نے طلوع آفتاب کے وقت اپنا تمام لشکر جمع کیا ادھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا، اس کثرت سے مچھر آئے کہ ان لوگوں کو سورج نظر بھی نہ آتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو ان پر مسلط کردیا، ان مچھروں نے نہ صرف ان کے خون بلکہ ان کے گوشت پوست تک کو کھالیا اور ان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بناکر جنگل میں پھینک دیا،انہی مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود بادشاہ کے نتھنوں میں گھس گیا اور آخر دم تک اس کے نتھنے میں رہا،اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مچھر کے ذریعے ایسا سخت عذاب دیا کہ اس کا سر ہتھوڑوں سے کچلا جاتا تھا حتی کہ اللہ نے اس مچھر کے ذریعے اس کو ہلاک کردیا ،فرعون کے ساتھ کیا بیتی یہ بھی تاریخ میں جلی حروف میں لکھا ہوا ہے کہ دراصل فرعون کسی شخص کا ذاتی نام نہیں تھا بلکہ قدیم شاہان مصر کا لقب تھا،
جیسے ہمارے زمانے میں بھی کل تک جرمنی کے بادشاہ کو قیصر، روس کے تاجدار کو زار، ترکی کے فرمانروا کو سلطان اور والئی دکن کو نظام کہتے تھے، آج بھی صدر، و وزیراعظم، شاہ اور چانسلر جیسے الفاظ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز افراد کے لئے استعمال ہوتے ہیں،قائد تحریک اور شیروانی زیب تن کر کے خودساختہ لیڈری کی آڑ میں خود کو حرف کُل کہلوانے والے جیسے ہیں اور واقعی اس منصب میں کچھ ایسی تاثیر ضرور ہے کہ اس پر سوار ہونے کے بعد دماغ گھومنے لگتا ہے، اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی حکمران بہکی بہکی باتیں اور خدائی دعوے کرنے لگتا ہے، ساون کے اندھے کی طرح اسے ہر سو سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے، سبزے کا انجام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ لہلہاتی کھیتی ایک دن خزاں کی زد میں ہوگی، بڑھاپا جوانی پر چھاجائے گا، ہریالی کو زردی اپنی لپیٹ میں لے لے گی، کھیتی چورا چورا ہوجائے گی،
اسے پیروں تلے روندا جائے گا، ہر طرف خاک اڑے گی اور نام صرف اسی کا باقی رہے گا جس کی ذات اور اقتدار کو زوال نہیں،زیب تن لباس اور نمائشی قوم سے خطاب کرنے والوں کی اکری گردن کے خطاب سے چند گھنٹوں بعد اب کی بار صرف ضلع مانسہرہ،ہزارہ ڈویژن یا خیبر پختونخواہ میں ہی نہیں پورے پاکستان کے درودیوار اس زلزلے سے ہلا کر قوم کے ہر فرد کو افسردہ کیا اور نادان خود کو ہی پارسا کہلوا رہے ہیں،دھرنا دھرنا کھیلنے والوں کے پشت پر کون ہے ؟؟یہ سوال یقیناً قبل ازوقت ہے مگر یہ بھول ضرور ہے کہ جب زمین پر اکڑ کر چلنے والے فرعون اور نمرود اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنارہے ہوتے ہیں تو ارض و سما کا خالق بھی تدبیر کررہا ہوتا ہے اور بالآخر اسی کی تدبیر غالب آکر رہتی ہے، باقی سب تدبیریں پانی کا بلبلہ ہیں۔
تحریر: راشد علی راشد اعوان