جنرل ایوب نے بھٹو صاحب کو بیٹا اور بھٹو صاحب نے انہیں ڈیڈی بنا لیا۔ یوں بھٹو صاحب محض کراچی کی نائٹ لائف میں ایکٹو ایک ذہین اور شوخ نوجوان کے درجے سے بلند ہو کر وزارتِ خارجہ تک جا پہنچے۔ پھر دونوں کی راہیں جُدا ہو گئیں۔ بھٹو نے ان کو خیرباد کہہ کر اپنی جماعت بنا لی اور آن کی آن میں سالوں سے موجود مسلم لیگ بلکہ مسلم لیگوں اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کی ہوا اکھاڑ کر رکھ دی۔ الیکشن جیت گئے اور وزارت عظمیٰ تک جا پہنچے۔ گویا لڑائی اپنی جگہ مگر انہوں نے اپنے روحانی باپ کا نام ہرگز نہیں ڈبویا۔ مضبوط ترین اور آج تک کے مقبول ترین ڈکٹیٹر سے زیادہ مضبوط اور کہیں زیادہ مقبول لیڈر اور حکمران بن کر ابھرے۔
پھر ایک طالع آزما نے بھٹو کو تختۂ دار پر چڑھا دیا۔ بھٹو کی بیٹی نے اس کا پرچم اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور بچپن سے بڑھاپے تک ساری زندگی آمروں اور بندوق برداروں سے لڑتے گزار دی۔اور ایک روز لڑتے لڑتے ہی جان دے دی۔ دونوں باپ بیٹی نے ثابت کر دیا کہ
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
اور یہ بھی کہ
راستہ ایک تھا ہم عشق کے دیوانوں کا
قد و گیسو سے چلے دار و رسن تک پہنچے
بی بی کے بعد پی پی پی کی باگ دوڑ زرداری صاحب کے ہاتھ میں آ گئی۔ بی بی شہید جاتے جاتے انہیں اپنی پارٹی ہی نہیں، جیتا جتایا بلکہ جیب میں پڑا الیکشن بھی دے گئیں۔ زرداری صاحب اور ان کے حواریوں کی پانچ سالہ حکومت نے ان کے تینوں بچوں یعنی بلاول، بختاور اور آصفہ کیلئے اقتدار کو ایک ایسا سہانا خواب بنا دیا ہے جسے شاید وہ ہمیشہ صرف عالم مدہوشی ہی میں دیکھا کریں گے اور اس پر طرہ یہ کہ زرداری صاحب خود کو سب پر بھاری بھی خیال کرتے ہیں!!!
اللہ تعالیٰ سب کو سمجھدار باپ عطاء کرے! آمین!
ضیاء الحق نے نواز شریف کو اپنا روحانی بیٹا بنایا اور کھیل کے میدان سے اٹھا کر ابھی تخت پنجاب تک ہی پہنچایا تھا کہ قضاء نے ان کا نشان مٹا دیا مگر وہ جو کام کرتے تھے پکا کرتے تھے اور ان کے جانشین بھی ان کے سچے وفادار تھے۔ سو اُنہوں نے اُن کو لاہور سے اُٹھا کر اسلام آباد پہنچا دیا۔
نواز شریف بھی جوہری کا انتخاب تھے سو جوہر نکلے اور اپنے روحانی باپ سے نہ صرف کہیں زیادہ مقبول ہو گئے بلکہ اسی کی طرح سالہا سال، اور اس سے بھی بڑھ کر بار بار حکومت بھی کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ پیری میں پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے اپنے وارث بھی تیار کرنے شروع کر دیئے لیکن کم از کم اب تک وہ اپنے روحانی باپ کی طرح اپنے وارثوں کا پکا انتظام کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں کہ جنہیں تصویر بنا آتی ہے
نواز شریف نے اپنے جانشینوں کیلئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ وہ بالکل بھول گئے ہیں کہ وہ مفاہمت یا سمجھوتے کے نہیں بلکہ اطاعت اور مریدی کے طفیل اس مقام تک پہنچے ہیں۔ وہ آج طاقتوروں سے پنگا لے سکتے ہیں، ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتے ہیں، انہیں ایکسپوز کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر وہ بام عروج پر پہنچنے سے قبل ہی گرجنا برسنا شروع کر دیتے تو آج کا شاعر ان کے بارے میں یوں نظم سرا ہوتا۔۔۔
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
خیر! جب عمر بھر سہا ہو، اطاعت کی ہو اور چاکری کی ہو تو پیری میں تھک جانا اور علم بغاوت تھام لینا کوئی زیادہ عجیب یا بڑی بات نہیں لیکن اپنے جوان بچوں کو کہ جنہوں نے ابھی یہ پہاڑ سی عمر گزارنی ہو، کسی مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی علم بغاوت تھما دینا کہاں کی دانائی ہے؟ کیا آپ میں اتنی طاقت ہے کہ اپنے بچوں کو راہِ بینظیر پر گامزن کر سکیں؟ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ بھلا آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ خدمت ہی میں عظمت ہے۔ با ادب بامراد اور جھکنے والے ہی کو پھل لگتا ہے۔ آپ لڑیں، ضرور لڑیں۔ آپ جھگڑیں، ضرور جھگڑیں۔ کامیاب ہو گئے تو غازی، نہ ہوئے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ اپنی اننگز آپ کھیل چکے ہیں۔ مریدی کی صف سے اٹھ کر پیری کی مسند پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن آگر آپ نے اپنے وارثوں کو اطاعت چھوڑ مفاہمت تک کا سبق نہ دیا اور مزاحمت کے راستے پر ڈال دیا تو پھر بس اتنا سمجھ لیجئے گا میاں صاحب کے آپ کے روحانی والد کی گدی کم از کم آپ کے خاندان کے پاس نہیں رہے گی۔
فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک ضیائی راستہ یعنی اپنا علم اپنے وارثوں کو دے کر جانے کا راستہ اور ایک زرداری طریقہ یعنی اپنے آبا کی گدی اپنے بچوں سے چھین کر نئے ’کھلاڑیوں‘ کے سپرد کر دینے کا راستہ۔
بہرنوع، میاں صاحب روحانی والد کا راستہ اپنائیں یا زرداری صاحب کا راستہ ہماری تو بس ایک ہی دعا ہے کہ خدا سب کو سمجھدار باپ عطاء کرے!