تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی تاج دار مدینہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں لکھنا شروع کریں زندگیاں ختم ہو جائیں گئی مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا کوئی ایک باب بھی ختم نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ رب کریم غفور و رحیم نے اپنی مقدس الہامی کتاب عظیم قرآن الفرقان میں ارشاد فرمایا ہے۔
اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے۔جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام کے ہدیے پیش کرے۔جس ہستی کا رب ذکر ساری آسمانی کتابوں میں کروائے۔جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔کو مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفائ، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی، اللہ رب العزت کی زات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں پھر اس ہستی کے مطلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہان کے آدمی اور جن ملکر بھی گن نہیں سکتے۔ چند ایک کا زکر کررہا ہوں دعا کرو اللہ تعالیٰ اور اللہ رب الغفور کے نبی والی دو جہاں ،سرداروں کے سردارنبیوں کے امام میرا لکھنا اور آپ کا پڑھنا قبول و منظور فرماکر مکہ مدینہ کی حاضری نصیب فرمائے(آمین)
میرے اور آپ کے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذاتی نام .محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نام ہے جسکی سب سے ذیادہ تعریف کی جائے۔اور احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ نام ہے جو سب سے زیادہ تعریف کرنے والہ ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی سب سے ذیادہ تعریف کرنے والے ہیں اس لئے آپ احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتے اور انسان سب آپکی تعریف کرتے ہیں اس لیئے آپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراج منیرکا لقب دیا یہ لقب صرف آپ کو ہی دیا گیا۔جس کا مطلب ہے روشن چراغ۔آپ نبوت کا روشن آفتاب ہیں۔آپ کے آفتاب کی کرنیں سب سے پہلے اصحاب رسول پر پڑی پھرتمام دنیا پر پھیل گئیں۔اور انہی کرنوں کی بدولت دنیا کے تمام خطے پر اسلام پھیل گیا۔اور ان کرنوں نے چپہ چپہ پر ہدایت کا نور پھیلایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کس کس خاصیت کا زکر کروں؟ ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کتاب مبین میں ترجمہ اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب سے اور حکمت سے پھر (تم سب کے بعد)آئے تمھارے پاس رسول تصدیق کرنے والہ اس کو جو تمھارے پاس ہے اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ضرور ایمان لائواور اسکی مدد کرویعنی اپنی امت کو پوری تاکید کر جائوکہ آنے والے پغمبرپر ایمان لاکر اسکی اعانت و نصرت کی وصیت کریں۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا سب (نبیوں) نے کہا ہم نے اقرار کیا فرمایا تم گواہ رہو میں بھی تمھارے ساتھ گواہ ہوں۔یہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ سب نبیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور نصرت کرنے کا عہد لیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی اْس دعا کی کانتیجہ ہے جب تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے دعائیں مانگیں تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی ترجمہ اے ہمارے رب تو ان میں ایک رسول معبوث فرما ان میں سے (یہ دعا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے ہی تھی۔اسی طرح قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ نے آپ کے مطلق بشارت دی تھی ترجمہ اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور مجھ سے پہلے تورات آئی ہے میں اسکی تصدیق کرنے والہ ہوں۔اور میں خوشخبری دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگا۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کوئی کیسے بیان کرسکتا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں ثانی تو بڑی چیز ہے آپ کا سایہ بھی نہیں ملے گا۔جو اللہ تعالیٰ نے آپکو عظمت دی ہے مخلوق میں سے کوئی آپکی شان کا ایک باب بھی مکمل نہیں کر سکتا ۔صرف ایک بات عرض کرنے کے بعد آپ سے اجازت طلب کرونگا کہ جب قیامت کا دن ہوگا۔ سورج سوا نیزے پر ہوگا۔ افراتفری کا عالم ہوگا۔ ماں کو بیٹے کی ہوش نہ ہوگئی۔بھوک پیاس کی شدت ہوگئی۔حساب و کتاب شروع نہ ہوگا۔نفسانفسی کا عالم ہوگا۔۔ایسے میں ایک گرو اکٹھا ہو کر سوچے کا کہ ابھی حساب و کتاب بھی شروع نہیں ہوا ۔اور گرمی کی شدت بھی برداشت نہیں ہو رہی تو آئو کیسی اللہ کے نبی کے پاس تا کے سفارش کروائی جا سکے اور کم از کم حساب و کتاب تو شروع ہو۔وہ گروپ متفقہ ہو کر حضرت آدم علیہ اسلام کے پاس جائے گا اور عرض کرے گا آپ ہمارے باپ ہیں۔ آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے آپ سفارش کریں تا کہ اللہ رب العزت حساب و کتاب شروع کریں۔حضرت آدم فرمائیں گئے نہیں نہیں میں سفارش نہیں کر سکتا جب یہ گروپ ناکام ہو کر واپس آئے گا پھر حضرت نوح کے پاس جائے گا۔مگر سفارش کی حامی حضرت نوح بھی نہیں بھریں گئے پھر یہی گروپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جائے گا اور عرض کریگا کہ آپ خلیل اللہ ہے۔
ہماری سفارش فرمائیں تاکہ حساب و کتاب شروع ہو سکے مگر حضرت ابراہیم خلیل اللہ بھی سفارش نہیں کریں گئے پھر یہ لوگ حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہونگئے اور بولیں گئے کہ آپ کلیم اللہ ہے آپ ہماری سفارش کریں تا کہ حساب و کتاب شروع ہو سکے مگر یہاں سے بھی کامیابی نہیں ملے گئی۔اسکے بعد یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہونگے اور بولیں گئے کہ آپ روح اللہ ہے۔آپ سفارش کریں حساب و کتاب شروع ہو سکے۔۔ یہاں سے بھی سفارش والی کامیابی نہیں ملے گئی۔آخر میں یہ لوگ میرے اور آپ کے آقا،محبوب خدا ،دو جہانوں کے سردارحضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔۔اور وہی سوال کریں گئے۔صدقے میں جائوں، قربان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر میرے گناہگار سمیت ہر آپ کا عاشق، میٹھے میٹھے مدنی مکی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ سجدے میں جا کر امت کو بخشوا کر ہی سجدے سے اٹھیں گئے۔سبحان اللہ اسی لئے ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتا ہے۔۔
تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا