تحریر : اے آر طارق
والدین کی تکلیف اور ان کے چہروں پر عیاں بے بسی اور لاچارگی دیکھی نہیں جا رہی،مائیں ہیں کہ بے بسی ،لاچارگی اور حسرت ویاس کی تصویر بنی بیٹھی ہیںاور ان کے آنسو ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے،ہچکیاں بھرتی ،روتی کرلاتی یہ مائیںوہ ہیں جن کے جگر گوشے اغواء کر لیے گئے ،جن کے بارے میں کوئی پتا نہیں چل رہا کہ وہ کہا ںہیںاورکس نے اٹھائے ہیں،ان کو اس حوالے سے ایسی کوئی اطلاع بھی نہیں ہے کہ جن سے ان کو سکون ہی آجائے ،ان کو یہ غم اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے کہ ہائے میرا معصوم بچہ کس حال میں ہوگا،اس دنیا میں بھی ہو گا کہ نہیں ،یہی غم اور سوچ ان کو ہلکان کیے ہوئے ہے ،ایسے میں آنسووں، سسکیوں ،آہوں،کی ایک لڑی ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔والدین کی یہ پریشانی کسی غم کے پہاڑ ٹوٹنے سے کم نہیںکہ ان کے دل کے چین ،معصوم بچوں کو دن دیہاڑے اغواء کرلیا گیا اور انہیں پتا ہی نہیں ہے۔
یقینا یہ ساری صورتحال انتہائی پریشان کن ہے،جس کی تکلیف اور کرب کا اظہار لفظوں میں کرنا ممکن نہیں،یہ تو جس تن کو لگے ،وہ تن ہی جانے،بچوں کے غواء کا معاملہ پیچیدہ ہی ہوتا جا رہا ہے،اور کسی طرح بھی پتا نہیں چل رہا کہ اس کے پیچھے وہ کون سے عناصر ہیں،جو ایسا کر رہے ہیں۔ملکی سیکیورٹی ادارے اس کھوج کی تلاش میں مصروف عمل ہیں،مگر کسی طرف سے حوصلہ افزاء پیغام نہیں مل رہا، جس سے پتا چلایا جا سکے کہ بچوں کے اغواء میں کون کون ملوث ہوسکتا ہے،اور کون یہ کارروائی کررہا ہے،یہی وہ بات ہے جو حکومتی سطح سے لیکر سیکیورٹی اداروں اور عوام میں ایک پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔جس کے تدارک کے لیے ہر محب وطن شہری سر جوڑے کھڑا ہے کہ شاید کوئی سبیل پیدہ ہو جائے۔
بچوں کے اغواء کے پیچھے کراچی آپریشن کے نتیجے میںوہاں سے روپوش ہو کرپنجاب ،خیبر پختونخواء میں آکر چھپے وہ دہشت گرد بھی ہوسکتے ہیں جو،اب پنجاب اور خیبر پختونخواء میں کسی نہ کسی نامعلوم مقامات پراپنی پناہ گاہیں بنا چکے ،بچوں کے اغواء میں ملوث پائے جا سکتے ہیں،جن کا کام ہی ایسے مکروہ دھندے سر انجام دینا ہے,چاہے وہ ٹارگٹ کلنگ ہو یا اغواء برائے تاوان کی وارداتیںیا کوئی مذموم مقاصد۔ اس کے علاوہ بچوں کے اغواء میں ان افغانی لوگوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے جوکافی عرصہ سے پاکستان رہ رہے ہیں,جن کو پاکستان سے امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مرحلہ وار افغانستان بدر کیا جارہا ہے,افغانی پٹھان 90,95 میں ایسے جرائم میں ملوث رہے ہیںاور تب بھی بچے اغواء کیے جا رہے تھے۔
پاکستان سے ملک بدری کا انتقام لینے اور اپنا غصہ نکالنے کی غرض سے ان کا بچوں کے اغواء میں ملوث ہونا خارج از مکاں نہیںہے,ان کا پاکستان سے انخلاء ملکی سلامتی اور خود مختاری کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ وہ قوم ہے اگر انتقام پر اتر آئے تو اپنا آپ تو تباہ کرتی ہی ہے ،دوسروں کے گھر کو بھی بھسم کر دیتی ہے,تب ان کی نظروں میںامن ،بھائی چارہ، رکھ رکھاو،میل ملاپ،تعلق داری کوئی معانی نہیں رکھتی۔بچوں کے اغواء میں افغانی پٹھانوں کی پاکستان سے ملک بدری اور نکال باہر کرتے کے باعث”اس چمن کے نونہا ل برباد کردو”کی وجہ بھی ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ اس میں گداگر بھی ملوث ہوسکتے ہیں،جن کی زیادہ تر تعداد جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے،کرائم کے حوالے سے جانے پہچانے جاتے ہیں،بچوں کے اغواء میں ملوث ہوسکتے ہیں،ان پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔
یہ لوگ بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ایسی گھناونی حرکت کر سکتے ہیں,سڑکوں پر موجود ابنارمل بچے،جن میں کوئی بول نہیں سکتا،کوئی ٹھیک طریقے سے چل نہیں سکتا،کسی کا بازو ،کسی کی ٹانگ خراب ہے،کسی کا دھڑ مارا جا چکا،کسی کا جسم بڑا اور سر چھوٹا،یہ سب بچے ان جرائم میں ملوث گداگروںکی اپنی بنائی ہوئی من مرضی کی حالت ہے۔ جن بچوں کو یہ بیک مانگنے کی نیت سے پکڑتے ہیں۔ان کے اعضاء پر مختلف جگہوں پر لوہے کے کڑے چڑھا دیتے ہیں،جس سے ان کی افزائش رک جاتی ہے۔کسی کا سر مفلوج تو کسی کا دھڑ ناکارہ،کسی کا بازو تو کسی کی ٹانگ خراب۔یہ رب کی نہیں۔
ان جرائم پیشہ افراد کا ان معصوم بچوں پر ستم ہوتا ہے ،جو ان کی ایسی حالت کر دیتے ہیں،کچھ کو تو اتنا ذہنی ٹارچر کرتے ہیں کہ وہ زندگی بھر کے لیے یادداشت کھو بیٹھتے ہیں،اور کچھ پاگل کی سی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔گداگری ایک ایسا پیشہ ہے کہ جس کی جڑیں جرائم پیشہ عناصر کی جھگیوں ،جھونپڑیوں، کھونٹنیوں سے نکلتی ہیں۔جرائم میں کمی کے لیے اور بچوں کے غواء کو روکنے کے لیے ان گداگروں سے بھی جان چھڑاناہوگی،جن کا شکار سب سے زیادہ یہ معصوم بچے ہوتے ہیں،بعض اوقات انہی میں سے جاسوس بھی پکڑے جاتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان گداگروں کے خلاف ایک ایسا آپریشن کیا جائے کہ کوئی گداگر سڑک پر دکھائی نہ دے اور اس کے بعد جو نظر آئے ،اس کو پکڑ کرحوالات میں ڈالا جائے۔
گداگروں سے چھٹکارہ ہی بچوں کے اغواء کی ر وک تھام میں معاون کردار ادا کر سکتا ہے،وگرنہ ایسا ممکن نہیں،کیونکہ بچوں کے اغواء میں سب سے زیادہ ملوث یہی گداگر ہوتے ہیں،جو معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو شرما جانے والے کام کر جاتے ہیں،جس کا کھایا،اسی کی تھالی میں چھید،ویسے بھی یہ ماڈرن فقیر جو لینڈ کروزروں سے روزانہ مختلف پبلک مقامات پر اتارے جاتے اور شام کو لے جائے جاتے ہیں،قطعا صدقہ وخیرات اور بھیک کے حقدار نہیں۔یہ ایک ڈھونگ اور فریبی انداز اپنائے ہوئے بھکاری ہیں ،جن کا کاروبار بھیک ہے ،جو جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ کہلواتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کے اغواء کے واقعات نہ ہوتو گداگروں سے شہروں اور قصبات کو پاک کرنا بہت ضروری ہے۔اس کے علاوہ بھی میرے ذہن میںایک بات جو کھٹکتی رہتی ہے ،وہ یہ ہے کہ پاکستان کی امن وامان کی خراب صورتحال کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔کوئی بھی سانحہ،حادثہ یا ناخوشگوار واقعہ کے پیچھے راء کا ہاتھ ہے ،کی کڑیاں کہیں نہ کہیں جا کر بھارت سے ہی ملتی ہیں۔ آرمی پبلک سکول پر حملہ ہو یا گلشن پارک میں مردوں،عورتوں اور معصوم بچوں پر بم بلاسٹ کی کارروائی،سانحہ پشاور ہویا واقعہ کوئٹہ۔بس کو اغواء کر کے مسافروں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا سانحہ ہو یا سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر فائرنگ کرکے ان کو شہید کرنے کاناخوشگوار واقعہ، الغرض جہاں کہیں بھی کوئی واقعہ،سانحہ رونما ہوا ہو ،اس کے تانے بانے ہمارے ازلی ،گھٹیا ذہنیت کے مالک، کمینہ خصلت بھارت سے جا ملتے ہیں۔
ایسے میں میرے ذہن میں انڈیا کی ایک فلم”دل ہے عاشقانہ ” و دیگر فلموں کا خیال آگیا،جو پاکستان کے خلاف بنائی گئی ہیں ،کو دیکھنے کے بعد صاف پتا چل جاتا ہے کہ آرمی پبلک سکول حملہ،گلشن پارک حملہ،کوئٹہ حملہ اور اس کے علاوہ بیشتر حملوں میں بھارت کا ہاتھ تو ہے ہی مگر اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما نظر آتی ہے جوانڈین فلمزکے نقشے میں دکھائی گئی کہ”بم بلاسٹ کروکہ ملک میں افراتفری پھیل جائے ،سکولوں ، پارکوں، مارکیٹوںاورپبلک مقامات پر حملہ کروکہ لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ جائیں ،بچے پڑھائی اور تاجر دکانیں چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں،معصوم بچوں کا اغواء کرو، والدین کو صرف بچوں کی کی ہی فکر کھائے جائے اور اتنا ٹارچر کرو کہ قوم پریشانی اور اضطراب کا شکار نظرآئے، جس کے نتیجے میںشرح خواندگی اور معیار زندگی بھی کم ہو، اورملک میں افراتفری کی فضاء بھی بنی رہے اور ملکی معشیت بھی ڈانواںڈول ہو جائے۔
انڈین فلمز میں فلمائے گئے سین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ملک میں پھیلی بدامنی ،دہشت کی لہر،بچوں کے اغواء اور یہاں ہونے والے بم دھماکوں کے پیچھے انڈین جاسوس ،نیوی کے حاضر سروس جنرل ،گلبھوشن سنگھ یادیو کا پکڑا جانا اور اس کی گرفتاری کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔ایسے میں بھارت کا یہ خیال بھی ہوسکتا ہے ،اس کی بنائی ہوئی فلمز کے تمام تر پیغامات کے مطابق کہ پاکستان کی ملکی فضاء خراب رکھو،بم دھماکے کرواو،بسوں کو بزور بندوق روکو اور افراد کو مار ڈالو،معصوم بچوںکو اغواء کرو یا کرواو،تا کہ عوام اپنی ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پرنکل کرجلوس نکالے اور لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور بچوں کی تلاش یا بازیابی کے لیے زور دے۔
ایسے میں وہ حکومت وقت کو بچوں کے اغواء کا بتاتے ہوئے مذاکرات کا اشارہ دیںاور فلم کے عین مطابق ان بچوں کی بازیابی کے بدلے میںاپنے ساتھی،انڈین جاسوس گلبھوشن سنگھ یادیو کی رہائی کا مطالبہ کر دیں۔دشمن بھارت بہت ہی چالاک ومکار ہے، کوئی بھی گھٹیا پلان مرتب کر سکتاہے، بھارت جو پاکستان کے خلاف من گھڑت فلمیںبنا تاہے ،کیا ممکن نہیں ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنی ہی پاکستان کے خلاف فلمائی گئی فلموںکو”نظریہ ضرورت” کے تحت اپنے استعمال میں لے آیا ہو۔اب اس پر غور کرنا اور کسی صحیح منطقی انجام تک پہنچنا ہمارے سیکیورٹی اداروں کا کام ہے جو اپنا کا م ملکی خدمت کے جذبے سے سرشار”مصلحت نہ سکھا مجھ کو جبر ناروا سے ،میں سر بکف ہوں، لڑا دے کسی بلا سے ”کی عملی تصویر بنے انتہائی دیانتداری سے بخوبی احسن انداز سے سر انجام دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک وقوم کی بہتری کے پیش نظر ایک ذمہ دار پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس دھرتی کے غٰیور اور بلند حوصلہ فوجی جوانوں ،سیکیورٹی اداروں،رینجرز، پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں، جومشکلات کی گھڑی میں عزم وہمت کا کوہ گراں بنے دشمن پر ہر دم نظریں گاڑیں ان پر جھپٹنے کو تیار بیٹھے ہیں اور تمام تر صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔آخر میں دعا ہے کہ اے للہ اس ارض وطن کے پھولوں کو سلامت رکھنا، اور ا ن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو نیست ونابود فر ما(آمین)۔
تحریر : اے آر طارق
03074450515
03024080369