تحریر : پروفیسر مظہر
جانے کیوں خیالات کی امربیل نے جکڑر کھا ہے عشروں پہ محیط زندگی کے سفر کا ایک ایک منظر نظر کے سامنے، یوں جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ وہ چٹکتے غنچے، مہکتی کلیاں، لہکتا سبزہ دمکتی شبنم، سبز کم خواب بنتی کھیتیاں، سونا اگلتے کھلیان، فلک بوس چوٹیاں، جنت نظیر وادیاں، گنگناتے جھرنے، بل کھاتی ندیاں، جھومتی گھٹائیں، معطر فضائیں، نکھرتے منظر، بدلتے موسم، کوئل کی کو کو، پپی ہے کی پی کہاں، چڑیوں کی چہکار، بوستانوں کی مہکار اور سب سے بڑھ کراٹوٹ رشتوں میں بندھی زندگی۔ بخدایہ الفاظ کی میناکاری ہے۔
نہ لفظی بازیگری ،یہ سب نظارے میرے دیس کے تھے اورہیں ،یہ الگ بات کہ اب یہ نفرت وکدورت ،منافرت ومنافقت اورلسانیت و فرقہ واریت کی دُھن میںگُم ۔یہ تاریخ کہ نوزائیدہ پاکستان اتنی تیزی اورتیزرفتاری سے ترقی کی راہ پہ گامزن کہ دنیاانگشت بدنداں ۔کوریا نے ترقی کاراز پانے کے لیے وفد بھیجا ،اقوامِ عالم ایک ابھرتی ہوئی اسلامی طاقت کے تخمینے لگاتی رہی لیکن ہوایہ کہ ساری دنیا کو تلقین کرتے رہے ، ذوقِ تعمیر کی حسنِ تدبیر کی خود تباہی کی جانب رہے گامزن ، ہائے دیوانہ پَن ہائے دیوانہ پَن ہم نے اتنی ترقیٔ معکوس کی کہ دنیاایک بارپھر انگشتِ بدنداں، آمریتوںنے ڈیرے ڈالے ،ملک دولخت ہوااور ”اسلام کی تجربہ گاہ” کوسوشلزم اورسیکولرازم کاگھُن چاٹنے لگا۔رہی سہی کسردائیںاور بائیں بازو کی تفریق نے یوںپوری کی کہ ہم اپنوںکے خلاف ہی سینہ سپر، باہم دست وگریباں۔ ہماری دعائیںبھی مستجاب نہیںکہ ہماراخُداسے تعلق کسی بگڑے بچے کی مانند۔ واللہ یہ ”جَگ بیتی” نہیں”ہَڈبیتی” ہے۔
جس کی پوری قوم گواہ کہ جس نے
یہ جو کچھ ہے جہاں میں اِس کے بیش و کم کو یکھا ہے
ہمیں کیا دیکھتے ہو ، ہم نے اِک عالم کو دیکھا ہے
ساراقصور آمریتوںکا بھی نہیںکہ سلطانیٔ جمہورکے دعویدار بھی آمریت کے علمبردار۔ پتہ نہیںیہ سلطانیٔ جمہورکی کونسی قسم ہے کہ دلیل کاجواب الزام اورالزام کابَدزبانی ،بَدکلامی اورکبھی کبھی گالی بھی۔ لفظ توموتیوںکی لڑی ہوتے ہیںلیکن ہمارے مہربانوںکے ہاںلفظ خنجر، لفظ نشتر ۔جنوںتو بس ایک کہ اقتدارکی مسندِ زرنگار ہاتھ آجائے ،باقی سب جائے بھاڑمیں۔ کششِ اقتدارکا یہ عالم کہ درِ آمرپر زانوئے تلمذ تہ ۔بھٹو مرحوم، ایوب خاںکی اٹھارہ رکنی کابینہ کے واحد سول وزیر، ایوب خاںکو ”ڈیڈی”کہنے والے ۔میاںنواز شریف ضیاء الحق کو اتنے محبوب ومرغوب کہ اُس نے دعادی ”خُداکرے کہ اسے میری عمربھی لگ جائے”۔ بی بی بینظیر کوپاکستان آنے کے لیے آمرمشرف کے این آراو کی چھتری کا سہارالینا پڑا۔
پرویزمشرف کو دَس باروردی میںمنتخب کروانے کے دعویدار گجرات کے چودھری ۔ نیاپاکستان بنانے اورقوم کی تقدیر بدلنے کے بلندبانگ دعوے کرنے والے عمران خاں نے آمرکے جھنڈے اٹھائے ،اُس کے ریفرنڈم کی حمایت میںگلی گلی ڈھول بجائے ،مقصدپھر وہی کہ اقتدارکا ہماسَر پہ بیٹھ جائے ۔جب اقتدارمقدرنہ ٹھہرا توآمریت کی مکروہات یادآنے لگیں ۔کچھ” شرپسندوں” نے دوبارہ اقتدارکا جھانسادے کرورغلایاتو پھرامپائر کی انگلی کی یادستانے لگی، یہ تک نہ سوچاکہ احتجاجی سیاست اوردھرنوںسے ملک وقوم کوکتنا نقصان ہوگا۔ ایم کیوایم ہرآمر کی ”بی ٹیم” رہی کہ اسے اپنی وحشتوںاور دہشتوںکے لیے کسی ایسے ہی سہارے کی ضرورت ۔حقیقت ،تلخ حقیقت یہی کہ اُدھرآمریت مسلط ہوئی اوراِدھر میرجعفر وصادق تھوک کے حساب سے ۔یہ صرف سیاستدانوں پہ ہی موقوف نہیں، اِس حمام میںتو سبھی ننگے۔ عدلیہ نے بھی ہرآمر کے اقتدار کودوام بخشنے کے لیے ”نظریۂ ضرورت” پیداکیا ،کسی کوآئین یادآیا نہ قانون البتہ صرف چندلوگ جو ضمیر کی آوازپر گھربیٹھ رہے یاپابندِ سلاسل۔چنددیوانوں کے سوامیڈیا بھی دست وبازو کہ آتشِ شکم کی سیری کے لیے یہ لازم ۔مکررعرض کہ ساراقصور آمریتوںکا نہیں، ہمیںاپنے گریبانوںمیں بھی جھانکناہو گا۔
اب البتہ فضاؤںمیں دِل خوش کُن سرگوشیاںکہ تیرگی کے مہیب جنگل میںاِک شمع فروزاںہو گئی جس کی ضیاء سے خودرو گلوںپرسبک روتتلیاں محوِرقص، خزاںرسیدہ اشجارپر اُمیدکی کونپلیں پھوٹنے لگیں ،زعفرانی مہک کے آثارنمایاں۔ منادی ہے یہ اِس امرکی کہ بہار کے پلٹ آنے کاموسم قریب آن لگا کیونکہ جراحِ وقت نے اپنے عزمِ صمیم کے نشترسے ارضِ وطن کی نَس نس میںبھرے موادِبَد کی جراحی کاارادہ کرلیا۔ اب عرشِ رعونت کے خداؤںکی خدائی اِس خوف سے لرزاںبَر اندام کہ فرعونی دستاروںکی طرف اٹھتے ہاتھ اب رُک نہ پائیںگے۔ ہماراایمان کہ یہ سعادت بحکمِ ربی چیدہ وچنیدہ لوگوںکے حصّے میںہی آتی ہے۔ یقین ہوچلا کہ
کوئی ہو موسم تھم نہیں سکتا رقصِ جنوں دیوانوں کا
زنجیروں کی جھنکاروں میںشورِ بہاراں باقی ہے
برگِ زرد کے سائے میں بھی جوئے ترنم جاری ہے
یہ تو شکستِ فصلِ خزاں ہے ، صوتِ ہزاراں باقی ہے
یہ اعجازہے اُس افہام وتفہیم کاجو پاکستان کی تاریخ میںشاید پہلی بارسول اورملٹری قیادت کے مابین دیکھی جارہی ہے۔ تجزیہ نگارلاکھ کہیںلیکن حقیقت یہی کہ ”شریفین” ایک صفحے پر، اُن کا مقصد ایک اورمنزل بھی ایک۔ نوازلیگ نے اپنے منشورمیں کرپشن کوجڑسے اکھاڑ پھینکنے کاقوم سے وعدہ کیا لیکن ”طریقۂ واردات” انوکھااور نرالا۔ سبھی جانتے ہیںکہ سیاسی جماعتوںکی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگرنوازلیگ کرپشن کے مگرمچھوںپر براہِ راست ہاتھ ڈالتی توگلی گلی شوراُٹھتا، جلسے ہوتے ،جلوس نکلتے ، دھرنے دیئے جاتے ۔شایداسی لیے ”باہمی مشاورت” سے یہ سعادت سپہ سالارکے حصّے میںآئی، اُن کے آہنی ہاتھ بلا امتیازکرپشن کے مگرمچھوں کے گریبانوںپر، پھربھی کوئی شورنہیں ،سبھی گُم سُم اوراینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے کرنے والے مفرور۔
تحریر : پروفیسر مظہر