پیرس: سعید بخشی وقار ہاشمی
کہتے ھیں کہ کسی نے ایک چیونٹی سے پوچھا کہ تمہاری خوراک کتنی ھے ؟ چیونٹی نے جواب دیا کہ سال بھر میں گندم کا ایک دانہ میری خوراک ھے. اس بندے نے تجرباتی طور پر اس چیونٹی کو ایک شیشی میں بند کردیا اور اسکے ساتھ ھی ایک دانہ گندم بھی شیشی میں ڈال دیا.. جب ایک سال گزرنے کے بعد اس نے شیشی کا معائنہ کیا تو کیا دیکھتا ھے کہ چیونٹی نے آدھے سے بھی کم دانہ کھایا ھے جس پر اس بندے نے چیونٹی سے کہا:تم تو کہتی تھی کہ تمہاری خوراک ایک دانہ گندم ھے مگر تم نے تو بہت کم کھایا.. اسکی کیا وجہ ھے؟ چیونٹی نے جواب دیا: ” اے انسان ! جب تک میں اللہ کی زمین پر آزاد پھرا کرتی تھی تب مجھے اپنے رزق کے بارے میں کوئی خوف لاحق نہیں تھا.. اس لیئے میں خوب پیٹ بھر کر کھاتی اور کبھی بھوکے پیٹ نہیں سویا کرتی تھی ۔ کبھی کسی دوسرے ہم نفس سے چھینا نہیں کرتی تھی نہ ہی کسی کے رزق پر یا کسی کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر اپنا پیٹ نہیں بھرا کرتی تھی بلکے اگر مُجھے اُس رزق کے بارے میں علم ہوتا تو سب کو ساتھ لے کر اکھٹے اخلاق کے ساتھ اس تک پہچتی تھی مگر جب سے میرا رزق اور آزادی تمہارے ھاتھ میں آگئی تو میں نے سوچا کہ یہ تو انسان ھے جو اپنے ھم جنسوں کا رزق بھی چھین لیتا ھے ‘ جو اپنے بھائی تک کا حق کھاجاتا ہے جو ایک ٹکڑا کی خاطر قتل بھی کر دیتا ہے جو صرف اور صرف اپنے لیے ہی جمع کرتا ہے اور اسی لالچ میں وہ اپنے ہی ہم نفس کمزور غریب یتیم مسکین بچوں بھوڑوں کو بوکھے پیاسوں کو بھول جاتا ہے میں کیا اُس پہ بھروسا کروں کیا اُس پہ یقین کروں میں کیا اس وعدہ خلاف کا کیا اعتبار کروں اس بات کی میں کیا توقع رکھوں اور کیا خبر کہ وہ اگلے سال بُھول جائے اپنی اور اپنی مصروفیت میں رہے اور مُجھے یوں ہی بھوکا اس قید میں مرنے کے لیے چھوڑ دے اور میری خوراک کا بندوبست بھی نہ کرے.بس اسی خوف کی وجہ سے میں نے اپنی بھوک کم کردی اور باقی گندم کو برے وقت کے لیئے بچا لیا۔اس چیونٹی کی ایک خطرناک نسل اور بھی ہے جو گندم کے علاوہ دُنیا کی ہر جاندار اور مردہ چیز کھا جاتی ہے ان کا ٹھکانا قبرستان ہوتا ہے جب کوئی ٹیڈی مکھی مچھر سانپ مر جاتا ہے تو اس کو گسیٹتیے ہوئے اپنی آرام گاہ لے جاتی ہے ان کی پسندیدہ خوراک انسانی گوشت ہے پر یہ ان کو کئی سالوں بعد ہی ملتا ہے وہ بھی کوئی ہٹا کٹا موٹا تازہ کھاتا پیتا مُردہ آئے تو پھر ان کے کئی سال بڑے آرام سے گُزرتے ہیں اور اس طرح ظاہر ہےانکی نسل میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتارہا ہےگزشتہ دِنوں اور اب تک ہزار کے قریب مُردے ان کی آرام گا تک لےجا کر دفن کیے گئےہیں پر اِن چیونٹیوں نے مُردہ کو کھانے کی بجاے دعوا بول دیا اور ان سب چیونٹوں نےبہت اتجاج کیا اور مطالبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مُردہ تو پہلے سے ہی بھوکھے پیاسے غربت کے مارے جن کی ہڈیاں ہی ہڈیاں ہیں اور یہ تو معصوم ہیں کمزور ہیں یہ ہماری خوراک نہیں ہے اور اعلان کیا ہے کہ ہمیں ہماری جو اصلی خوراک ہے وہ مہیا کی جائے۔
“جب سانپ زندہ ہوتا ہے تو وہ چیونٹیاں کھاتا ہے ”
“اور جب سانپ مر جائے تو چیونٹیاں اُسے کھاتی ہیں”
“”” وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے””””
“ایک درخت سے کئی لاکھ ماچس کی تیلیاں بنتی ہیں”
مگر ایک ماچس کی تیلی کئی لاکھ درخت جلا سکتی ہے
“”وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے “”
“اسی لیئے زندگی میں کسی کمزور کو مت ستانا شاید آپ طاقت وار ہو ”
” مگر مت بھولو کے وقت آپ سے زیادہ طاقت وار ہے ”
کیوں کے
“””وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے “””
ایسی ہزار مثالیں اور اصلاحی کہانیاں ہمارے ہاں بزرگوں سے سُنتےآ رہے ہیں تعجب کی بات تو یہ ہے کے یہ صرف سُننے اور پڑنے تک ہی رہ گئی ہیں ان پر عمل کرنا بہت مُشکل ہوتا نظر آرہا ہے اور علمیہ یہ ہے کے آج کل ایسے قصے کہانیاں کوڑھا ردی کی زینت بنی ہوتی ہیں اور کسی کونے میں پڑی ہوتی ہیں ۔
بہر حال سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن کافی سمجھدار سمجھ کے بھی نہ سمجھی کا اعتراف
سعید بخشی وقار ہاشمی Tell0750008786