تحریر: ابنِ نیاز
اللہ خدائے وحدہ لا شریک کا اسمِ ذات ہے۔ دراصل لفظ اللہ دینِ اسلام کی بنیاد ہے۔ کیونکہ یہ ایک جامع لفظ ہے اس لفظ اور جس ہستی کا یہ نام ہے اس پر یقین کامل ہی اسلام میں داخل ہونے کا درست اور صحیح راستہ ہے۔ لفظ اللہ ایسا جامع ہے کہ اگر اس کو مختلف حصے کرکے دیکھا جائے تو بھی مفہوم وہی نکلتا ہے جس کا معنی معبود ہے۔ اور یہ اس لفظ کا معجزہ ہے۔ اللہ سے اگر حرف”الف” جدا کر دیا جائے تو باقی “للہ” رہ جاتا ہے۔ جس کا معنی بنتا ہے اللہ کے لیے یا اللہ کی قسم۔اگرحرف “ل” بھی ہٹا دیں تو “لہ” رہ جاتا ہے۔ جس کا معنی اس کے لیے۔
ظاہر ہے “اس کے لیے ” اشارہ اس ذات کی طرف ہو گا جو کہ ہمہ وقت ہر جا موجود ہو۔ اور اللہ کے سوا کوئی اور ذات ہمہ گیر اور ہمہ وقت موجود نہیں ہوتی۔اسی طرح اگر لہ سے ل بھی ہٹا دیا جائے تو حرف ” ہ ” باقی رہ جاتا ہے۔ جس کا ایک معنی وہ بھی ہے۔ اب حرف لہ کی طرح ہ بھی اللہ کی ذات کے لیے ہر وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔اگر صرف لفظ اللہ میں اتنا کچھ پنہاں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی کی ہو گی۔ اللہ کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا دنیا کا ایک ناممکن ترین کام ہے۔ کیونکہ اللہ کی ذات پاک ایسی ہے کہ اگر دنیا کے تمام درخت قلم ، تمام سمندر سیاہی اور درختوں کے پتے صفحات بن جائیں ، لکھنے والی عمر کروڑوں سال ہو تو بھی اللہ کے بارے میں جو لکھا جائے گا وہ اسکا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو گا جو کہ حقیقت میں اللہ ہے۔
دنیا کا کوئی سا بھی مذہب ہو، سب کا اللہ کے بارے میں عقیدہ مشترک ہے۔سب کی آواز ایک ہے کہ اس کائنات کا خالق کوئی ایسی ہستی ہے جو کہ ہر وقت موجود ہے اور اس کائنات کا نظام ایک خاص نظم و ضبط سے چلا رہی ہے۔ اسلام کے علاوہ بے شک باقی مذاہب اللہ کو بطور اللہ کے نہیں مانتے لیکن پھر وبھی وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اتنی بڑی کائنات خود بخود وجود میں نہیں آسکتی۔ انکا بنانے والا کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہے۔ دنیا میں ایک چھوٹا سا کارخانہ بنا انسانوں کے نہیں چل سکتا۔بے شک آٹو میٹک ہو، مشینیں کام کرتی ہوں، لیکن ان مشینوں کو بھی تو بنانے والا کوئی ہے۔ ان کو کنٹرول کرنے والا بھی تو کوئی ہے۔کمپیوٹر میں پروگرامنگ کی جاتی ہے ، وہ بھی انسان ہی کرتا ہے۔
اسی طرح انسان بھی ہے جس کی باقاعدہ پروگرامنگ کی گئی ہے اور وہ اسی پروگرامنگ کے تحت عمل کرتا ہے۔ اس قدر پیچیدہ پروگرام کس نے بنایا؟ سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں لگا دیں یہ جاننے کے لیے کہ انسان ہے کیا لیکن ابھی تک شاید بیس فیصد بھی نہیں جان سکے۔ وہ حیران ہیں کہ کس طرح ڈی این اے کے تحت سارا کام ہوتا ہے۔ اورڈین این اے کوئی لمبا چوڑا حصہ نہیں ہے بلکہ اگر اس کو انسانی جسم کا ایٹم کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کیا یہ ڈی این اے خود بخود بن گیا۔ نہیں بلکہ انسانی جسم کا یہ کمپیوٹر پروگرام اللہ کی ذات نے تخلیق کیا ہے۔تب ہی تو انسان اتنا پیچیدہ ہے۔اس انسان کو، کائنات کو بنانے والی ہستی کو مختلف زبانوں میں اور مختلف مذاہب میں مختلف نام دیے گئے ہیں۔ ہندی میں بھگوان (اگرچہ اب بھگوان بھی ان کا جدا ہو چکا ہے کہ دنیا کی ہر چیز چاہے وہ گائے ہو، بندر ہو سانپ ہو، ہاتھی ہو ، شیر ہو، پتھر ہو، ستارے، چاند، سورج، سب کے سب ان کے بھگوان ہیں)۔ انگریزی میں گاڈ (God) ، فارسی میں خدا وغیرہ ہیں۔ معنی بظاہر سب کا ایک ہی بنتا ہے یعنی اللہ۔ اللہ کے بارے میں واضح بات اس وقت کی جاسکتی ہے جب اسکی حقیقت معلوم ہو۔ اور حقیقت کیا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ پھر بھی اگر کم سے کم الفاظ میں ہم اللہ کو جاننے کی کوشش کریں تو پہلی چیز جو ہمیں اللہ تک لے کر جائے گی وہ الوہیت ہے یعنی خدائی کا تصور۔ وسیع کائنات جس کے آغاز اور انجام کا خیال کرنے سے ہمارا ذہن تھک جاتا ہے جو نامعلوم زمانہ سے چلی آرہی ہے۔
جس میں بیحد و بے حساب مخلوق پیدا ہوئی اور پیدا ہوئے چلی آرہی ہے۔ جس میں ایسے ایسے حیرت انگیز کرشمے ہو رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس طرح کی کائنات میں خدائی کا دعویٰ صرف وہی کر سکتا ہے جو لامحدود ہو، ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے۔ کسی کا محتاج نہ ہو۔ قادر مطلق ہو۔ حکیم اور دانا ہو۔ علیم و خبیر ہو۔ کوئی چیز اس سے مخفی نہ ہو۔ وہ سب پر غالب ہو اور کوئی اسکے حکم سے سرتابی نہ کر سکے۔ بے حساب قوتوں کا مالک ہو۔ کائنات کی ساری چیزوں کو اس سے زندگی اور زندگی کا سامان بہم پہنچے۔ عیب، نقص اور کمزوری کی تمام صفات سے پاک ہو اور کوئی بھی اسکے کاموں میں دخل نہ دے سکے۔ یہ تمام صفات صرف ایک ذات واحد میں جمع ہونا ضروری ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ دو ہستیاں برابر کی صفات رکھ سکیں۔ کیونکہ سب پر غالب اور سب پر حاکم تو صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ صفات تقسیم ہو کر بہت سے خدائوں میں بٹ جائیں ، جس طرح ہندوئوں کا عقیدہ ہے۔ کیونکہ اگر ایک حاکم ہو، دوسرا عالم، تیسرا رازق ہو تو ہر ایک دوسرے کا محتاج ہو جائے گا۔ اور ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں گے تو یہ کائنات یک لخت فنا ہو جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن پاک “سورہ الانبیائ، آیت ٢٢” میں ارشاد فرماتا ہے:
“اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو زمین اور آسمان دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ بس پاک ہے اللہ جوعرش کا مالک ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔”
کیونکہ اس طرح ممکن نہیں تھا کہ سب آزاد اور خود مختار خدا ہمیشہ ہر معاملے میں ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کرکے اتنی وسیع کائنات کے نظم و نسق کو آپس میں یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ بلکہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا۔ ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خدائوں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ کسی نہ کسی طرح وہ ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ خدا کے اس کامل اور صحیح تصور کو مد نظر رکھ کر جب ہم کائنات پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عالم کی ساری موجودات میں سے ایک بھی ان صفات سے متصف نہیں ہے۔ وہی تمام صفات میں یکتا ہے۔ دنیا کی تمام چیزیں محتاج ہیں ، محکوم ہیں، بنتی بگڑتی ہیں، مرتی جیتی ہیں۔ کسی کو ایک حال پر قیام نہیں۔ کسی ایک کو بالا تر قانون کے خلاف بال برابر حرکت کرنے کا اختیار نہیں۔ان کے حالات خود گواہی دیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خدا نہیں۔بلکہ کسی چیز میں خدائی کی ادنیٰ جھلک بھی نہیں۔ کسی کا خدائی میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔کائنات کی ساری چیزوں سے خدائی چھین لینے کے بعد ہمیں یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ پھر ایک ہی ہستی ایسی ہے جو سب سے بالا تر ہے۔ صرف وہی تمام خدائی صفات رکھتی ہے اور اسکے سوا کوئی اللہ نہیں۔
اسی لیے تو اسلام کے تمام عقائد اور تمام عملی نظام میں سب سے پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللہ ہے یعنی اللہ پر ایمان۔” سفیان بن عبداللہ ثقفی سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اکرم ۖ سے عرض کیا کہ آپ ۖ اسلام سے متعلق انہیں کوئی ایسی پکی بات بتا دیں کہ پھر انہیں اسکے متعلق کسی سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا۔ اس بات کا اقرار کر کہ میں ایمان لایا اللہ پر اور پھر اس پر قائم ہو جا۔”
ایمان باللہ کے علاوہ باقی جتنے عقائد واعمال ہیں، سب اسی ایک کے تابع ہیں۔ فرشتوں پر ایمان اسلیے ہے کہ وہ اللہ کے فرشتے ہیں اور اسکے حکم سے ہر وقت اسکی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی حالت قیام میں ہے ، کوئی رکوع کر رہا ہے، کوئی سجدے میں ہے، کوئی تشہد میں بیٹھا ہوا ہے تو تا قیامت انکی یہ حالت رہے گی اور اسی حالت میں وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے رہیں گے۔ کتابوں پر ایمان اس لیے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی ہیں اور ان میں اللہ کے ہی احکامات درج ہیں۔ رسولوں پر ایمان اس لیے کہ وہ اللہ پاک نے ہی اپنے بندوں کی رہنمائی و ہدایت کے لیے بھیجے ہیں۔ یومِ آخرت پر ایمان اس لیے ہے کہ وہ خدا کے انصاف کا دن ہے۔ اسی طرح نماز ، روزہ ، زکٰوة ، حج، جہاد وغیرہ اسلیے فرائض میں شامل ہیں کہ اللہ نے ان کو مقرر کیا ہے۔
غرض ہر وہ چیز جو اسلام میں داخل ہے خواہ وہ عقیدہ ہو یا عمل، اسکی بنیاد ایمان باللہ پر قائم ہے۔اس ایک چیز کو الگ کر دیجئے پھر نہ ملائکہ کوئی چیز ہیں نہ یومِ آخرت۔ نہ رسول پیروی کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور انکی لائی ہوئی کتابیں۔ نہ فرائض اور عبادات میں کوئی معنی باقی رہ جاتے ہیں اور نہ حقوق و واجبات میں۔ گویا اس ایک مرکز کے ہٹتے ہی یہ سارے کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بلکہ سے سے اسلام ہی کسی چیز کا نام باقی نہیں رہ جاتا کہ اسلام کے معنی سلامتی کے اور جب کوئی چیز ہی سلامت نہی رہی تو اسلام کہاں رہا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کا اعتراف انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اور یہ اس عہد و پیمان کا نتیجہ ہے جو روزِ اول کو خالق و مخلوق کے درمیان ہوا تھا۔ “اور جب تمھارے رب نے آدم کی پشت سے اس کی نسل کو پیدا کیا اور ان کو انہی پر گواہ کیا اور کہا کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا۔ہاں۔ ہم گواہ ہیں۔ (سورة الاعراف۔١٧٢)” یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی خارجی اثرات سے انسان کا یہ جذبۂ فطرت دب جاتا رہا ہے اور پھر وحی الٰہی کے ذریعہ سے بار بار انسان کے اس دبے ہوئے جذبے کو ابھارا گیا۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ۖ تک جتنے بھی انبیاء کرام آئے، ان سب نے ہی توحید کا پرچار کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔
” جب اللہ کے رسول ان کے پاس آگے اور پیچھے کی طرف سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ خدا کی سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ( حٰم السجدہ۔١٤) انبیاء سے بڑھ کر خود خالق کائنات کی گواہی ہے جو اس چیز کی شہادت دے رہا ہے کہ پورے عالم میں اس کی ذات کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو خدائی کی ذات سے متصف اور خدائی کے اقتدار کی مالک ہو۔ اسکے بعد فرشتے جو کائنات کے انتظامی اہل کار ہیں۔ وہ اپنے ذاتی علم کی بنا پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جس کی طرف زمین و آسمان کے انتظامی معاملات میں وہ رجوع کرتے ہوں۔ اسکے بعد مخلوقات میں سے جن لوگوں کو بھی حقائق کا تھوڑا یا بہت علم حاصل ہو ، ان سب کی آغاز دنیا سے آج تک یہ متفقہ شہادت رہی ہے کہ ایک ہی خدا اس اس پوری کائنات کا مالک ہے۔ اللہ پاک خود فرماتے ہیں۔ ” اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اسکے سوا کوئی خدا نہیں اور فرشتے اور سب اہلِ علم بھی ثابت قدمی اور انصاف کے ساتھ اس پر گواہ ہیں کہ اس زبردست اور حکمت والے کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ (آل عمران۔ ١٨)”
تحریر: ابنِ نیاز