تحریر : مسز جمشید خاکوانی
کچھ روز پہلے ہم ایک جگہ شاپنگ کے لیئے گئے وہ جیولری کی ایک بڑی مارکیٹ ہے آمنے سامنے قطاروں میں دکانیں جن کے درمیان ایک تنگ سا راستہ۔ میں اکثر ایسی جہگوں پہ جانے سے گریز کرتی ہوں ۔بہت مجبوری کے عالم میں جانا پڑے تو اور بات ہے ہم دکان میں رکھی بینچ پہ بیٹھے جیولری دیکھنے میں محو تھے اچانک مجھے ایسا لگا کوئی میری پیٹھ کو مسلسل تھپتھپا رہا ہے ہائے،میں نے مڑ کر دیکھا توایک بھکارن جو اپنی طرف سے گونگی بنی ہوئی تھی میرے سر پہ کھڑی تھی اس نے اشارے سے منگنے کی ایکٹنگ کی تو میں نے بھی اشارے سے ہی معاف کرو کا جواب دیا وہ ہٹی کٹی جوان عورت ایکدم مڑی تو پاس سے گذرتے راہگیر سے ٹکرا گئی اور بے ساختگی میں اسے گالیاں دینے لگی لوگ ہنسنے لگے کہ کیسے گونگی بنی ہوئی تھی ۔ایسے مناظر ہمارے ملک میں بہت عام ہیں ۔بلکہ موجودہ زمانے میں جو قوم اس لعنت میں زیادہ مبتلا ہے وہ امت مسلمہ ہی ہے اور خاص طور پر ہمارے ہاں تو یہ باقائدہ صنعت کی صورت اختیار کر گئی ہے اور کیوں نہ ہو جب ہمارے حکمرانوں نے کشکول اٹھا لیا ہے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔
یہی مثال اب زبان زد عام ہے دکان میں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ کیا کریں جب یہ لوگ اللہ کے نام پر مانگتے ہیں کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے اس پر ایک صاحب رازداری سے بتانے لگے کہ پہلے اس بازار میں یہ گداگر نظر نہیں تے تھے لیکن جب سے کچھ لوگ اس مارکیٹ میں حصہ دار بنے ہیں یہ عام ہو گئے ہیں بھلا وہ کس طرح ؟مجھے بھی تجسس ہوا ۔وہ اس طرح کہ ایک حصہ دار ان فقیروں کی کمائی میں حصہ دار ہیں ۔۔۔۔۔۔ اُف ۔۔کوئی کام ایسا بھی ہے جس میں کوئی مافیا ملوث نہ ہو ؟اس لیئے یہاں کسی چیز کی اصلاح نہیں ہو رہی ۔تعلیم کا کاروبار تو اس قدر پھل پھول گیا ہے کہ اب ایک منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے میرا بیٹا کہتا ہے ہم تعلیم بھی نوکری اور پیسے کے حصول کے لیئے حاصل کرتے ہیں علم و آگہی کے شعور کے لیئے نہیں ،جس دن ہم نے علم کو گہی کا زریعہ سمجھااس طمع سے نکل آئیں گے ۔
خیر میں بات کر رہی تھی گداگری کی جدھر نظر دوڑائو ان کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے ،بسوں ٹرینوں ،چوراہوں،ہسپتالوں قبرستانوں ،بازاروں گلی کوچوں ،مسجدوں سیاحتی مراکز،غرض کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں یہ نہ پائے جاتے ہوں ۔اور یقین کریں یہ کئی کاروبار اور پلازوں کے مالک ہیں چونکہ ان کے پیچھے بڑے بڑے نام چھپے ہیں اس لیئے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا ۔حالانکہ بغیر محنت کے کمائی گئی روزی حرام ہوتی ہے اور وہ اچھے اعمال بھی ڈبو دیتی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام میں رزق حلال کا تصور کیا ہے لیکن جہاں اللہ کے نام پر گلے کاٹے جا رہے ہوں وہاں مانگ کے کھانا تو بہت معمولی اقدام تصور کیا جائے گا۔محنت سے کمانے والا اللہ کا دوست ہے یہ فرمان حضور ۖ کا ہے ۔بغیر محنت کے یا گداگری کے زریعے کمائی جانے والی دولت سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں قوم ذلت و رسوائی کا نشان بن جاتی ہے انسانی غیرت ،حمیت ،عزت ،عزمت و شرافت اور خودداری کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے ۔ہمت و اولوالعزمی اور اعلیٰ ظرفی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
بغیر محنت و مشقت کے روزی میسر آ جائے تو سستی و کاہلی قوم کے لوگوں کے رگ و ریشے میں سما جاتی ہے ۔اور بھیک مانگنا ان کی فطرت میں شامل ہو جاتا ہے ۔ایک روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک سائل کی آواز سنی اور یہ سمجھ کر کہ بھوکا ہے اس کو کھانا کھلانے کا حکم دیا تھوڑی دیر بعد پھر اس کی آواز سنائی دی معلوم ہوا وہی سائل ہے اور کھانا کھانے کے بعد پھر مانگ رہا ہے آپ نے اس کو بلایا اور دیکھا کہ اس کی جھولی روٹیوں سے بھری ہوئی ہے آپ نے اس کی جھولی کا ایک سرا پکڑ کر اونٹوں کے آگے جھاڑ دیا اور کہا تو سائل نہیں تاجر ہے ،تاجر سے یاد آیا کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کبھی کسی تاجر کے حوالے اپنا ملک نہ کرو ورنہ وہ اسے بیچ کھائے گا ۔
گداگری کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ کفران نعمت بھی کرتا ہے اس کے علاوہ یہ جھوٹ اور مکاری کے ذریعے جو رقم حاصل کرتا ہے اسے چھپاتا بھی ہے (یعنی بالکل ہمارے سیاستدانوں کی طرح جن کے اثاثے بھرتے ہیں مگر نیت نہیں بھرتی)ذرا غور کیجئے یہ اللہ کی نعمتوں کی نا شکری بلکہ احسان فراموشی ہے۔
اللہ ہر انسان کو عقل و دانائی عطا کرتا ہے ہاتھ پائوں کان ناک آنکھوں جیسی نعمتیں دیتا ہے انسان چاہے تو اپنے لیئے احسن طریقے سے رزق حلال کما سکتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ تمام تر صلاحیتیں ہونے کے باوجود وہ ہر ایک کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے مکاری کرتا ہے جھوٹ بولتا ہے ۔بھیک طلب کرنے کے لیئے اللہ اور اس کے نبی ۖ کا واسطہ دیتا ہے تاکہ خیرات دینے والا ان مقدس ناموں کو سن کر اس غیر مستحق اور بے ضمیر سائل کو کچھ نہ کچھ دینے پہ مجبور ہو جائے ۔تندرست ہونے کے باوجود لوگوں پہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مجبور ہے معذور ہے اپاہج ہے اور خلق خدا کو فریب دے کر گداگری کے فن کا ماہر ہو جاتا ہے ،گداگری کی لعنت سے اصل مستحق لوگ بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔بھلا کون جا کے تحقیق کرے کہ کون مستحق ہے کون نہیں ۔خلق خدا نے اپنے خالق سے منہ موڑ کر مانگنے کے کیا کیا طریقے نہیں اپنالیئے،کوئی گا کر مانگتا ہے ،کوئی ٹیپ میں صدا بھر کرسارا دن سڑکوں پر اونچی واز میں لوگوں کا سکھ چین برباد کرتا پھرتا ہے ،کوئی اپنی حالت کو قابل رحم بنانے کے لیئے خود کو اذیت دیتا ہے ۔ہٹی کٹی عورتیں سارا دن ٹولیوں کی صورت بچے اٹھائے مانگتی پھرتی ہیں ،اس کی آڑ میں کئی مکروہ دھندے جنم لیتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک معقول نظر آنے والی عورت سے جب میں نے کہا تم کوئی کام کیوں نہیں کرتیں ؟ تو اس نے بتایا میں ایک کھاتے پیتے گھر کی عورت ہوں ۔جلال پور میں ہمارا بڑا سا گھر ہے میری ساس کے سات بیٹے ہیں اس کو بڑا مان ہے سات بیٹوں پر چار ایکڑ زمین ہے ہماری ۔تو پھر تم بھیک کیوں مانگتی ہو؟ میں نے پوچھا ،اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہنے لگی میرے اپنے دو بھائی ہیں ماں ہے بھابیاں ہیں باپ مر چکا ہے میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے کی تھی بغیر وٹے سٹے کے جس کا میری ماں کو بڑا رنج تھا اس سے میرا ایک بیٹا ہے جو اب جوان ہے میرا میاں منڈی میں آڑھت کا کام کرتا تھا بہت محنتی تھا اس نے مجھے بڑا سکھ دیا لیکن بد قسمتی سے آٹھ سال پہلے جب میرا بیٹا نو سال کا تھا میرے خاوند کا انتقال ہو گیا ۔میں بے سہارہ ہوکر بھائیوں کے در پر آ بیٹھی۔
ماں تو پہلے ہی ناراض تھی بھابھیوں نے بھی منہ نہ لگایا باپ مر چکا تھا میرا بیٹا ان کو بھاری پڑنے لگا تو اس کا دادا آکر اس کو لے گیا ۔بس اس کے بعد میرے بھائیوں کی بن آئی۔ انہوں نے میرے رونے پیٹنے کی کوئی پرواہ نہ کی اور مجھے میرے موجودہ خاوند کے ہاتھ ڈیڈھ لاکھ میں بیچ دیا یہ جو اپنی طرف سے زمیندار بنے ہوئے تھے یہاں آ کر مجھے پتہ چلا کہ یہ فقیروں کا گروہ ہے یہ اپنی عورتوں کو بھیک پہ لگاتے ہیں میری ساری دیورانیاں ،جٹھانیاں سارا دن بن ٹھن کے کوٹھیوں پہ بھیک مانگنے جاتی ہیں اور ساتھ میں چھوٹی موٹی چوری اور گندے کام بھی کر لیتی ہیں میں نہیں کرنا چاہتی تو مجھے چار چوٹ کی مار پڑتی ہے کہ تیرا ہم نے پیسہ بھرا ہے ۔اس خاوند سے میرے تین بچے بھی ہو چکے ہیں ورنہ بیٹا جوان ہے بلاتا ہے اس کے پاس چلی جاتی ۔بھائیوں سے گلہ کروں تو کہتے ہیں اب اسی کو اپنا نصیب جان کے گذارا کر ۔وہ عورت بہت روئی اتنے میں اس کی ساتھ والیاں آ گئیں تو ان کے ساتھ چلی گئی میں اب بھی اس کو کئی بار مانگتے دیکھتی ہوں لیکن۔۔۔۔۔۔۔!
تحریر : مسز جمشیدخاکوانی